عمران خان بارودی سرنگیں بچھا کر گئے، حالات
پر جلد قابو پا لیں گے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان بارودی سرنگیں بچھا کر گئے، حالات پر جلد قابو پا لیں گے‘‘ لیکن مجھے کوئی خاص تشویش نہیں ہے کیونکہ ایک آدھ بارودی سرنگ حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور جلد بارودی سرنگ کو اپنی پڑ جائے گی۔ خاکسار ایک عام آدمی ہے اور بہادری و دلیری اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے حالانکہ میں نے منع بھی کیا تھا کہ اسے اس قدر کوٹنے کی ضرورت نہیں کیونکہ زیادہ کوٹنے سے یہ ریت کی شکل اختیار کر جائے گی اور ریت کی دیوارکسی وقت بھی بیٹھ سکتی ہے اور جسے دھکا دینے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز سکھر اور جیکب آباد میں اجتماعات سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے‘ دعوتِ ولیمہ
میں دال کھلائوں گا: جمشید دستی
سابق رکن قومی اسمبلی اور عوامی راج پارٹی کے سربراہ جمشید دستی نے کہا ہے کہ ''مہنگائی بہت بڑھ چکی ہے، دعوتِ ولیمہ میں دال کھلائوں گا‘‘ جس سے دو طرح کی کفایت شعاری اور بچت ہو گی، ایک تو دال گوشت وغیرہ کی نسبت کافی سستی ہے اور دوسرے، دال کا سن کر مہمان بھی کم کم ہی آئیں گے جبکہ اب ہم شادیوں ہی کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک میں پہلے ہی آبادی کا بم پھٹنے کے قریب ہے اور بچت کی خاطر ہی پچھلی دفعہ میں الیکشن مہم میں گدھا گاڑی پر سوار ہو کر نکلا تھا لیکن اس دفعہ باراتیوںنے گدھا گاڑیوں پر سوار ہونے سے انکار کر دیا تھا‘ خدا انہیں بھی کفایت شعاری کی تو فیق دے۔ آپ اگلے روز بارات روانگی کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
مہنگائی برپا کرنے والوں کی کال پر
عوام کیوں نکلے: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''مہنگائی برپا کرنے والوں کی کال پر عوام کیوں نکلے‘‘ اور لگتا ہے کہ انہوں نے فراموش کر دیا ہے کہ مہنگائی کا آغاز کس کی حکومت میں ہوا تھا، یہ تو سابقہ حکومت کا وہ کام تھا جسے موجودہ حکومت پوری دلجمعی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچا رہی ہے اور مہنگائی کی آڑ میں قوم کی قوتِ برداشت کا امتحان بھی لیا جا رہا ہے مگر محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے بیشتر عوام کو نسیان کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے‘ یا عوام کی ایک بڑی اکثریت عمران خان کی لائی ہوئی مہنگائی کو قابلِ قبول سمجھتی ہے لہٰذا انہیں ہماری حکومت کی مہنگائی کو بھی جائز بلکہ ضروری سمجھنا چاہیے جس کی ان سے ہرگز امید نہیں ہے۔ آپ اگلے روز دیگر رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو رہی تھیں۔
چوروں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اسمبلی لوٹوں کی ہے‘ چوروں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا‘‘ اور ہم جو ضمنی الیکشن میں حصہ لینے جا رہے ہیں تو اس کا مقصد منتخب ہو کر لوٹوں کی ا سمبلی کا حصہ بننا نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مستعفی ارکان اپنے استعفے واپس لینے کی فکر میں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسمبلیوں سے باہر بیٹھ کر مکھیاں مارنے سے بہتر ہے کہ اسمبلی کے اندر بیٹھ کر مکھیاں مار لی جائیں ، نیز یہ جو کہا گیا ہے کہ چوروں کا کوئی نظریہ نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جن کا نظریہ ہوتا ہے وہ چور نہیں ہوتے بلکہ اس بیان کو اس کے مخصوص پس منظر کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے جس کی کاپی طلب کرنے پر فراہم کی جا سکتی ہے‘ جس میں عوامی سہولت کے لیے اس بیان کے علاوہ دیگر کئی بیانات کے پس منظر بھی بیان کیے گئے ہیں۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کررہے تھے۔
احتجاج کی کال مسترد‘ عمران خان
قوم سے فراڈ کر رہے ہیں: رانا ثناء
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''احتجاج کی کال مسترد، عمران خان قوم سے فراڈ کررہے ہیں‘‘ اگرچہ عوام نے اس کال کو مسترد نہیں کیا اور کئی شہروں سے عوام اس احتجاج میں شریک ہوئے لیکن ہم اسے پورے شدومد سے مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس لاعلم قوم کو پتا ہی نہیں کہ اس کے ساتھ فراڈ ہو رہا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں اس کے ساتھ اتنے فراڈ ہو چکے ہیں کہ اسے فراڈ اور عدم فراڈ میں کوئی فرق ہی نظر نہیں آتا اس لیے اس صورت حال پر سابقین کے شرمندہ ہونے کی ضرورت زیادہ ہے؛ اگرچہ اُس فراڈ سے انہوں نے متعدد فوائد بھی حاصل کیے تھے لیکن موجودہ فراڈ تو بے فائدہ اور بے کار معلوم ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز دیگر پارٹی رہنمائوں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ثناء اللہ ظہیر کے لیے شہزاد بیگ کا نوحہ:
جو دل پہ بیت گئی لب سے وہ ادا نہیں کی
بچھڑ کے تو نے مرے دوست انتہا نہیں کی؟
کروں میں کیا جو ترے ساتھ جیتے مرتے تھے
اُٹھائے ہاتھ بھی رسماً مگر دعا نہیں کی
میں جانتا ہوں تیرے ساتھ جو بھی گزری ہے
امیرِ شہر کے در پہ مگر صدا نہیں کی
تو شعر کہتا تھا جو دل میں بیٹھ جاتا تھا
عجیب شخص تھا‘ دل سے بھی التجا نہیں کی
عجیب طرزِ تعلق تھا تیرا لوگوں سے
گزاری زیست بھی اور موت بھی خفا نہیں کی
کہاں کہاں تھے چھپے موڑ اس کہانی میں
دلوں پہ تو نے قیامت نئی بپا نہیں کی
ابھی تو روئیں گے شہزادؔ صبح و شام اُسے
ابھی تو آنکھ نے رونے کی ابتدا نہیں کی
آج کا مطلع
اگر اس کھیل میں اب وہ بھی شامل ہونے والا ہے
تو اپنا کام پہلے سے بھی مشکل ہونے والا ہے