گرمی میں بجلی نہ ہو تو عوام بد دعائیں
دیتے ہیں: شہباز شریف
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''گرمی میں بجلی نہ ہو تو عوام بددعائیں دیتے ہیں‘‘ لیکن یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ بددعائیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ یہ اقتدار جو سنبھالے نہیں سنبھل رہا‘ انہی بددعاؤں کا نتیجہ ہے اور چونکہ عوامی خدمت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اس لیے عوام ہمیں بددعائیں دیں مگر ہم مزید پھلیں پھولیںگے کیونکہ ایسی تنگ دستی ہم نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی‘ لگتا ہے کہ لوگوں کی بددعاؤں میں کمی آ گئی ہے۔ آپ اگلے روز ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈمی حکومت کا عنقریب جنازہ دُھوم سے نکلے گا: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ڈمی حکومت کا عنقریب جنازہ دُھوم سے نکلے گا‘‘ البتہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عنقریب کتنا وقت لیتا ہے جبکہ ہمارے لیے تو یہ عنقریب فوراً ہی آ گیا تھا کیونکہ سازش ہی اتنی زبردست تھی کہ پلک جھپکتے ہی سارا کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا اور ستم ظریفی یہ ہے کہ کوئی اسے سازش تسلیم ہی نہیں کر رہا جبکہ ہماری حکومت کمزور تو تھی لیکن اتنی کمزور بھی نہیں کہ اسے ہٹانے کے لیے کسی سازش کا سہارا نہ لیا جاتا‘ البتہ میری اپنی پوزیشن خاصی کمزور ہو گئی ہے اور لگتا ہے کہ میرے خلاف بھی یقینا کوئی سازش ہوئی ہوگی۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پاکستان کی سفارتکاری آم کی طرح میٹھی ہے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پاکستان کی سفارتکاری آم کی طرح میٹھی ہے‘‘ بلکہ اقتدار کی ہر مشکل ہمارے لیے آم کی طرح میٹھی ہوتی ہے اور ہم اسے بڑی رغبت سے چوستے ہیں‘ اور یہ نہیں دیکھتے کہ اس میں اتنی مٹھاس کہاں سے آئی ہے کیونکہ محاورے کے مطابق ہمیں آم کھانے سے غرض ہوتی ہے‘ پیڑ گننے سے نہیں۔ جبکہ ہم چوس کر اس کی گٹھلی پھینکتے نہیں بلکہ گٹھلیوں کے دام کھرے کرتے ہیں‘ حتیٰ کہ ہم کچے آموں سے بھی پورا پورا استفادہ کرتے ہیں جو اچار ڈالنے اور مربہ تیار کرنے کے کام آتے ہیں‘ جو خود آم سے بھی میٹھا ہوتا ہے اور بعض اوقات کچے آم کو تیل ڈال کر پکاتے بھی ہیں۔ آپ اگلے روز بخاری ہاؤس میں نیئر بخاری کی عیادت کر رہے تھے۔
نظر کمزور ہو تو فوراً عینک لگوانی چاہیے: ڈاکٹر ثمن
آئی سپیشلسٹ ڈاکٹر ثمن نے کہا ہے کہ ''نظر کمزور ہو تو فوراً عینک لگوانی چاہیے‘‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو عینک کے بارے میں کچھ علم ہی نہیں ہے کہ یہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے اور دیواروں سے ٹکراتے پھرتے ہیں جس سے خود بھی زخمی ہوتے ہیں اور دیواروں کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں حتیٰ کہ دیواروں کے کان بہرے ہو جاتے ہیں اور وہ نوشتۂ دیوار کے بھی قابل نہیں رہتیں‘ اس لیے ایسی صورت حال سے عینک لگوا کر بچا جا سکتا ہے اور میرا یہ انکشاف یقینا ایک قومی خدمت شمار ہونا چاہیے کیونکہ اس سے بالآخر لوگوں کا بھی فائدہ ہے اور دیواروں کا بھی‘ یعنی ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ آپ اگلے روز لاہور میں نظر کی کمزوری کے بارے میں ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
عدم استحکام پر مولانا کو اژدہا سُونگھ گیا: مولانا گل نصیب
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا گل نصیب نے کہا ہے کہ ''عدم استحکام پر مولانا کو اژدہا سُونگھ گیا‘‘ اور ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی کمزور‘ بیمار اور نحیف و نزار قسم کا اژدہا تھا جو مولانا کو صرف سونگھ کر ایک طرف ہو گیا ورنہ پی ڈی ایم والے اس وقت صدارت کے لیے کوئی نیا نام تلاش کر رہے ہوتے لیکن مولانا جب سے صدر مملکت بنائے جانے سے محروم ہوئے ہیں انہوں نے ہر معاملے میں عفو و درگزر سے کام لینا شروع کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
بے فیض ساعتوں میں
منہ زور موسموں میں
خود سے کلام کرتے
اکھڑی ہوئی طنابوں
دن بھر کی سختیوں سے
اکتا کے سو گئے تھے
بارش تھی بے نہایت
مٹی سے اٹھ رہی تھی
خوشبو کسی وطن کی
خوشبو سے جھانکتے تھے
گلیاں مکاں دریچے
اور بچپنے کے آنگن
اک دھوپ کے کنارے
آسائشوں کے میداں
اڑتے ہوئے پرندے
اک اجلے آسماں پر
دو نیم باز آنکھیں
بیداریوں کی زد پر
تاحد خاک اڑتے
بے سمت بے ارادہ
کچھ خواب فرصتوں کے
کچھ نام چاہتوں کے
کن پانیوں میں اترے
کن بستیوں سے گزرے
تھی صبح کس زمیں پر
اور شب کہاں پہ آئی
مٹی تھی کس جگہ کی
اڑتی پھری کہاں پر
اس خاک داں پہ کچھ بھی
دائم نہیں رہے گا
ہے پاؤں میں جو چکر
قائم نہیں رہے گا
دستک تھی کن دنوں کی
آواز کن رتوں کی
خانہ بدوش جاگے
خیموں میں اڑ رہی تھیں
آنکھوں میں بھر گئی تھی
اک اور شب کے نیندیں
اور شہر بے اماں میں
پھر صبح ہو رہی تھی
آج کا مقطع
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جوظفرؔ
صاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں