٭... نامور امریکی مزاح نگار مارک ٹوئن کو ایک بار کسی شہر میں ایک سیمینار میں شرکت کے لیے جانا پڑا۔ سیمینار میں شرکت کے دوران پہلے جن صاحب کو اپنا مضمون پیش کرنے کی دعوت دی گئی مارک ٹوئن نے محسوس کیا کہ ان صاحب کا مضمون اُس مضمون سے بہت بہتر تھا جو وہ لکھ کر لائے تھے؛ چنانچہ جب انہیں سٹیج پر بلایا گیا تو وہ آ کر بولے: خواتین و حضرات! جن صاحب نے ابھی ابھی مضمون پیش کیا ہے وہ اور میں ایک ہی جہاز سے اس شہر میں وارد ہوئے تھے‘ ایک ہی ہوٹل کے ایک ہی کمرے میں رات بسر کی اور ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ میرا لکھا ہوا مضمون وہ پڑھیں گے اور اُن کا لکھا ہوا مضمون میں پیش کروں گا تو آپ نے میرا مضمون اُن کی زبانی سن ہی لیا ہے، اس لیے آپ کا بہت بہت شکریہ اور یہ کہہ کر وہ سٹیج سے اُتر گئے۔
٭... ایک ملک میں جہاں سزائے موت گلوٹین کے ذریعے دی جاتی تھی، وہاں ایک بار ایک سردار، ایک مسلمان اور ایک یہودی کو کسی جرم میں سزائے موت دی جانی تھی۔ انہوں نے سب سے پہلے مسلمان کو گلوٹین کے نیچے فِٹ کیا اور پوچھا کہ آپ کی کوئی آخری خواہش ہے تو بتائیں۔ اس نے کہا کہ میرا منہ کعبہ شریف کی طرف کر دیں۔ ایسا ہی کیا گیا اور جب گلوٹین کا بٹن دبایا گیا تو اس کا بلیڈ تیزی سے نیچے آیا لیکن گھڑڑڑڑ گھڑڑڑ کرتا ہوا چھ انچ کے فاصلے پر رک گیا۔ مسلمان سے کہا گیا کہ تکنیکی طور پر آپ کی سزا پر عملدرآمد ہو چکا ہے، اس لیے آپ جائیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہودی کو لٹایا اور اس سے بھی اس کی آخری خواہش پوچھی تو اُس نے کہا کہ میرا منہ یروشلم کی طرف کر دیا جائے۔ اب کی بار بھی بلیڈ پانچ انچ کے فاصلے پر آ کر رک گیا۔ یہودی کو بھی سزا پر عمل درآمد ہونے کی بنا پر رہا کر دیا گیا۔ اب سردار صاحب کی باری آئی۔ انہیں گلوٹین کے نیچے لٹایا اور آخری خواہش پوچھی گئی تو وہ بولے: ''آخری خواہش پر لعنت بھیجو، پہلے اس مشین کو تو ٹھیک کراؤ!‘‘
٭... ایک شخص ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ایک اونٹ اور ایک بکری کو لے کر آیا اور اس کی انتظامیہ سے کہا کہ یہ دونوں گانا بہت اچھا گاتے ہیں، اگر آپ چاہیں تو اپنے مہمانوں کو انٹرٹین کرنے کے لیے انہیں خرید سکتے ہیں۔ انتظامیہ نے اس میں دلچسپی ظاہر کی اور آزمانے کے لیے بڑے ہال کو خالی کروا کر وہاں ٹھہرے ہوئے جملہ مہمانوں کو ہال میں اکٹھا کیا جس کے بعد وہ شخص اونٹ اور بکری کو سٹیج پر لایا۔ وہاں پران دونوں نے جو گانا سنایا تو ہال کافی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا، اس پر بھاؤ تاؤ کے بعد ہوٹل والوں نے وہ دونوں جانور خرید لیے۔ رقم کی ادائی کے بعد وہ شخص بولا:
ایک ضروری بات جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گانا صرف بکری گاتی ہے جبکہ اونٹ ساتھ ساتھ ہونٹ ہلاتا جاتا ہے!
٭... نامور برطانوی ڈرامہ نگار‘ نقاد اور مصنف جارج برناڈ شا سے اس وقت کی ایک خوبصورت فلم ایکٹریس نے کہا:
''اگر ہم دونوں شادی کرلیں تو ہمارے بچے میرا حسن اور آپ کی قابلیت لے کر پیدا ہوں گے‘‘۔
اور اگر وہ میرا حسن اور تمہاری قابلیت لے کر پیدا ہو گئے تو...؟‘‘ برناڈ شا نے جواب دیا۔
٭... ایک شخص ایک پہنچے ہوئے بزرگ سے ملنے کے لیے ان کے گھر گیا، دروازے پر دستک دی تو ان کی اہلیہ نے پوچھا: کیا بات ہے؟ اس شخص نے بزرگ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی جس پر وہ خاتون تلخی سے بولیں: ''صبح سے جنگل کی طرف نکلا ہوا ہے، وہیں کہیں جھک مار رہا ہوگا، کام کا نہ کاج کا‘ دشمن اناج کا، اور تمہیں اس سے ملنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں تھا؟‘‘۔
وہ شخص اس بزرگ سے ملنے کے لیے جنگل کی طرف چل پڑا۔تھوڑی دیر بعد اس نے دیکھا کہ وہ حضرت شیر پر سوار چلے آ رہے ہیں، وہ اس شخص کو دیکھ کر بولے: جنہوں نے شیر پر سواری کرنی ہوتی ہے، انہوں نے گھر میں بھی شیرنیاں رکھی ہوتی ہیں!
اور‘ اب آخر میں سدرہ سحر عمران کی نظم:
خاموشی کا ترجمہ
کوئی رنگ ہمیں اجنبی نہیں سمجھتا
نہ کوئی بارش ایسی ہے
جسے ہماری آنکھ کا پتا معلوم نہ ہو
تہمتیں ہماری گلیوں میں
تمہاری تصویر لیے پھرتی ہیں
چاند ہکلاتا ہے
جب بھی تمہارے نام کی لہریں
ساحل کے بازوؤں میں پھسلنے لگیں
پانی کے پیروں میں پڑی ہوئی گرہیں
کھلنے لگتی ہیں
تتلیوں کے لباس پر
ہماری خواہشوں کے دستخط ہیں
یہ شہر تمہیں ہمارے حسن سے شناخت کرتا ہے
کبھی جاتے جاتے مڑ کے دیکھنا
اسی رستے پر
ہماری آواز کی اگربتیاں سلگ رہی ہوں گی
جو تمہارے نقشے میں کھنڈر ہو چکا ہے
ہمیں درختوں نے پھول سمجھا
اور ہمارے پاؤں پڑ گئے
مگر ہم تو تمہارا جھوٹ تھے
جو تم اپنے آپ سے ساری زندگی بولتے رہے
ہم نے اپنے کانوں میں
تمہارا شور ہونے نہیں دیا
یہاں تک کہ ہونٹ بہرے ہو گئے
اور تم بھی ان کاغذوں پر
پکارتے رہے
جن پر کسی اور دل کی مہریں
ثبت تھیں
آج کا مطلع
دیکھو تو کچھ زیاں نہیں کھونے کے باوجود
ہوتا ہے اب بھی عشق نہ ہونے کے باوجود