پی ٹی آئی ووٹ چور‘ ضمنی الیکشن ہوئے نہیں
ماتم شروع ہو گیا: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی ووٹ چور‘ ضمنی الیکشن ہوئے نہیں ماتم شروع ہو گیا‘‘ حالانکہ چوری کرنے کے لیے اگر مکمل وسائل موجود ہوں تو ووٹ جیسی معمولی چیز کو چوری کرنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ اُن میں سزا کا بھی امکان نہ ہونے کے برابر ہے، معمولی پکڑ دھکڑ ضرور ہوتی ہے لیکن بالآخر کیس بیچ میں ہی رہ جاتا ہے اور بعض اوقات فردِ جرم کی بھی نوبت نہیں آتی، اور نہ ہی کسی چیز کی واپسی کا کوئی خدشہ ہوتا ہے اور اثاثوں کے انبار الگ لگائے جا سکتے ہیں، اس لیے اتنے روشن امکانات کے بعد ووٹ چرانا صریحاً تھڑدلی کی نشانی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
پانی کے نکاس کے لیے بارش کا
رُکنا ضروری ہے: بختاور بھٹو
پیپلز پارٹی کی رہنما بختاور بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پانی کے نکاس کے لیے بارش کا رُکنا ضروری ہے‘‘ جس طرح پانی کے جمع ہونے کے لیے بارش کا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ قدرت ہی کا کام ہے کہ مینہ برساتی ہے اور وہی اسے روکتی بھی ہے؛ چنانچہ بارش اگر رُک جائے اور مون سون بھی ختم ہو جائے تو پانی خراب و خستہ ہو کر خود ہی اِدھر اُدھر ہو جائے گا بصورتِ دیگر اس کی نکاسی محض ایک مفروضہ ہے اور ہم ٹھوس حقیقتوں پر یقین رکھتے ہیں‘ مفروضوں پر نہیں اور یہ سبق ہمیں ورثے میں ملا ہے اور ہماری پارٹی خود بھی ٹھوس کام کرتی ہے اور دنیا دیکھتی کی دیکھتی رہ جاتی ہے اور اس پر ہم نے کبھی غرور بھی نہیں کیا۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
عمران خان چور دروازے سے آیا چور
دروازے سے بھاگ گیا: شازیہ مری
وفاقی وزیر برائے تخفیفِ غربت و سماجی تحفظ اور ترجمان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا ہے کہ ''عمران خان چور دروازے سے آیا تھا‘ چور دروازے سے بھاگ گیا‘‘ حالانکہ ایک دروازے کو ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور بھاگنے کے لیے کوئی اور دروازہ استعمال کرنا چاہیے تھا، اگرچہ وہ بھاگے نہیں بلکہ عدم اعتماد یعنی قومی اسمبلی ہی کے ذریعے ایوانِ اقتدار سے بے دخل ہوئے تھے، جبکہ چوری کے الزامات کئی دیگر افراد پر بھی ہیں اور کئی معززین مقدمات بھی بھگت رہے ہیں اور بعض شرپسند انہیں جہاں بھی دیکھیں آوازے بھی کسنا شروع کر دیتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے کیونکہ اس چوری کو ہم چوری سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
مجھے مثالی شوہر کی تلاش ہے: مہوش حیات
اداکارہ مہوش حیات نے کہا ہے کہ ''مجھے مثالی شوہر کی تلاش ہے‘‘ اس لیے جو جو حضرات مثالی شوہر بن سکتے ہیں وہ جلد از جلد خود ہی آگاہ کر دیں کیونکہ میں مثالی شوہر کہاں تلاش کرتی پھروں گی؛ چنانچہ اپنے تعارف نامے میں انہیں اپنی جملہ خوبیاں کھل کر بیان کرنا ہوں گی مثلاً وہ بیوی کی سختیاں کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر ابراہم لنکن سے لے کر اب تک کئی عمائدین کے بارے میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وہ بیوی سے ڈرا کرتے تھے اور اُن کی شان و شوکت میں کوئی فرق بھی نہیں آتا تھا کہ بیوی سے پٹنا بجائے خود کسی سعادت سے کم نہیں، نیز یہ کہ انہیں رَن مرید کہلانے میں بھی کوئی عار نہ ہوگا۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پروگرام میں گفتگو کر رہی تھیں۔
ماہنامہ الحمرا لاہور
شاہد علی خاں کی ادارت میں چھپنے والے ممتاز جریدے الحمرا کا تازہ شمارہ شائع ہو گیا ہے، جس کے لکھنے والوں میں پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر خورشید رضوی، محمد اکرام چغتائی، ڈاکٹر تحسین فراقی، پروفیسر قیصر نجفی، مسلم شمیم، پروفیسر حسن عسکری کاظمی و دیگران حصۂ مضامین میں‘ سفرنامہ میں ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ، افسانوں میں ڈاکٹر اے بی اشرف، آغا گل، سیما پیروز و دیگران جبکہ آپ بیتی وغیرہ میںڈاکٹر اختر شمار، جتندر بلو، رخشندہ نوید و دیگران، تبصروں میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید، نسیم سحر، طالب انصاری و دیگران، حصۂ نظم میں ستیہ پال آنند، اسلم انصاری، شوکت کاظمی، زاہد منیر عامر، ڈاکٹر جواز جعفری و دیگران جبکہ شعبۂ غزل میں نذیر قیصر، امجد اسلام امجد، اعتبار حسین ساجد، سحر انصاری، جمیل یوسف، اسلم انصاری، قیصر نجفی، آفتاب خان، کرشن کمار طور، ڈاکٹر قاسم جلالی و دیگران شامل ہیں۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
وہ ایک لمحہ بھی کیا رائیگاں گزرتا ہے
کبھی جو تیرے مرے درمیاں گزرتا ہے
ترے بغیر بھی اے دوست یہ پہاڑ سا دن
گزر تو جاتا ہے لیکن کہاں گزرتا ہے
لگی ہے آگ کہیں اور ہی نجانے کدھر
مگر اک اور طرف سے دھواں گزرتا ہے
ہمارے بڑھتے ہوئے پیچ و تاب کے باوصف
بڑے سکون سے عہدِ زیاں گزرتا ہے
سفر ہی خوابِ سفر ہے فقط کچھ اور نہیں
کہ گرد اڑتی نہیں کارواں گزرتا ہے
ذرا بھی شائبہ اس کا نہیں جو ہے موجود
کہیں نہیں ہے جو اُس کا گماں گزرتا ہے
ہے ناگوار مرا شور تو بہت‘ لیکن
مرا سکوت بھی اُن پر گراں گزرتا ہے
پڑا ہوں ساکت و جامد جہاں پہ شام و سحر
زمین چلتی ہے اور آسمان گزرتا ہے
ظفرؔ ہم اپنے لیے خود ہی بند کر بیٹھے
وہ راہ جس سے یہ سارا جہاں گزرتا ہے
آج کا مطلع
کب وہ ظاہر ہوگا اور حیران کر دے گا مجھے
جتنی بھی مشکل میں ہوں آسان کر دے گا مجھے