ہمیں حکومت میں آنے کی پہلے ضرورت
تھی نہ اب شوق ہے: جاوید لطیف
مسلم لیگ نواز کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''ہمیں حکومت میں آنے کی نہ پہلے ضرورت تھی نہ اب شوق ہے‘‘ کیونکہ خزانہ تقریباً خالی تھا اور وسائل بھی مخدوش حالت میں تھے تو اس صورت حال میں حکومت میں آنے کا کس کو شوق یا ضرورت ہو سکتی ہے کیونکہ بھرے ہوئے خزانے پر حکومت میں آنے کی ضرورت تو سمجھ میں آتی ہے جبکہ بصورتِ دیگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ یہ سراسر گھاٹے کا سودا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے گھاٹے کا سودا کبھی نہیں کیا، اس لیے اب پچھتا رہے ہیں کہ ہم نے حکومت میں آ کر محض اپنا وقت ہی ضائع کیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کو
بتانا ہو گا کہ وہ چاہتے کیا ہیں: شہباز گل
تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے کہا ہے کہ ''حکومتیں بنانے اور گرانے والوں کو بتانا ہو گا کہ وہ چاہتے کیا ہیں‘‘ اور حکومت بنانے کے بعد اسے گرا دینا کہاں کا انصاف ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے جبکہ ایک مستقل مزاج حکومت کو گرا دینا ویسے بھی ہماری سمجھ سے باہر ہے؛ اگرچہ بہت سی باتیں اس کے علاوہ بھی ہماری سمجھ سے باہر ہیں لیکن ایساکرنا ایک کھلا مذاق ہے اور اس قدر سنجیدہ مزاج لوگوں کو مذاق سے بہرصورت گریز کرنا چاہئے۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ کے احاطہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
احتساب کا سرکس چل رہا، ایک ایک ظلم
کا حساب لیں گے: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''احتساب کا سرکس چل رہا، ایک ایک ظلم کا حساب لیں گے‘‘ جبکہ کرپشن اور منی لانڈرنگ پر مقدمات قائم کرنے سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کیونکہ یہ کوئی جرم نہیں ہے اور نہ ہی عوام اسے جرم سمجھتے ہیں ورنہ وہ ہمیں ووٹ ہی کیوں دیتے ہیں بلکہ یہ سارا کچھ نہ کرنا جرم ہے کیونکہ یہ تیز رفتار ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور ہمارے قائد کے اس فرمان کو کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا جبکہ ان احتسابی مقدموں سے نہ صرف شرفا کی پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں بلکہ جنہوں نے پگڑی نہ پہن رکھی ہو وہ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ آپ اگلے روز احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
معاملات پہلے بھی کہیں اور سے چل
رہے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''معاملات پہلے بھی کہیں اور سے چل رہے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہے‘‘ اور یہ مستقل مزاجی ہمیں پسند آئی ہے اور ہم اس کی داد دیتے ہیں اور یہ ہمارے دور ہی کی پالیسی ہے جس کا تسلسل اب تک باقی ہے اور یہ اچھی بات بھی ہے کیونکہ خود اگر کچھ کرنے سے گریز ہو تو معاملات بھی اصولی طور پر پھر کسی اور کو چلانا چاہئیں یعنی ؎
جس کا کام اُسی کو ساجے
اور کرے تو ٹھینگا باجے
کیونکہ فضول ٹھینگا بجاتے رہنا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے جس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اگلی بار
یہ ڈاکٹر محمد اویس قرنی کے افسانوں کا مجموعہ ہے جسے پشاور سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب اس کرب کے نام ہے جس نے اسرارِ حیات کی حیرتوں میں جستجو کے سفر کو تخلیقی سرشاریوں سے نوازا۔ پسِ سرورق مصنف کی تصویر کے علاوہ ناصر علی سید‘ ڈاکٹر اظہار اللہ اظہار کی تحسینی آرا درج ہیں، اندرونِ سرورق اس کتاب میں سے مختصر اقتباسات درج کیے گئے ہیں۔ ابتدائیہ میں افسانے کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا گیا ہے، مصنف کی طرف سے افسانوں کا یہ پہلا مجموعہ ہے جس میں کل 19 افسانے شامل ہیں۔ ٹائٹل سمیت کتاب کا گیٹ اَپ عمدہ ہے جبکہ کتاب کے آخر میں ناصر علی سید اور اظہار اللہ اظہار کی آرا درج کی گئی ہیں۔ طرزِ تحریر رواں اور دلچسپ ہے۔
اور‘ اب ہڈالی سے گل فراز کی غزل:
دیکھا ہے اُس کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے
گم چیز جیسے مل گئی ہو ڈھونڈتے ہوئے
میں اس طرف کا اب تو کبھی نام بھی نہ لوں
میں جس طرف گیا تھا کبھی دوڑتے ہوئے
کیوں توڑتے ہوئے کبھی تم سوچتے نہیں
اک عمر خرچ ہوتی ہے پھر جوڑتے ہوئے
کرتے ہوئے درست خراب اور ہو گیا
ایک اور پڑ گئی ہے گرہ کھولتے ہوئے
رُکتا نہیں تھا وہ بھی نہ میں رکنے والا تھا
دونوں تھے ایک دوسرے کو روکتے ہوئے
اب اُس سے بچتا بھاگتا پھرتا ہوں گل فرازؔ
گزری ہے جس کے پیچھے کبھی بھاگتے ہوئے
آج کا مطلع
جیسی اب ہے اسی حالت میں نہیں رہ سکتا
میں ہمیشہ تو محبت میں نہیں رہ سکتا