عمران کو دوبارہ آنے کا موقع
نہیں دینگے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ہم عمران کو دوبارہ آنے کا موقع نہیں دیں گے‘‘ کیونکہ ہم بار بار کسی کو موقع نہیں دیتے اور اگر انہوں نے دوبارہ آنا ہے تو لکھ کر ہمیں درخواست پیش کریں اور اس بات کی ضمانت دیں کہ وہ جلسے جلوسوں کے ذریعے عوام کو بہلانا بند کردیں گے اور ہمارا جینا مزید حرام کرنے کی کوشش نہیں کریں گے اور ضمانتِ نیک چلنی کے بغیر وہ ہم سے یہ توقع ہرگز نہ رکھیں کہ ہم انہیں دوبارہ آنے کا موقع فراہم کریں گے اور ضمانت بھی آصف زرداری جیسے کسی معتبر آدمی کی ہونی چاہیے بصورت دیگر وہ دوبارہ آنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ آپ اگلے روز پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
ضمنی کے بجائے نئے انتخابات
پر معاملات طے پا گئے ہیں: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ضمنی کے بجائے نئے انتخابات پر معاملات طے پا گئے ہیں‘‘ اگرچہ یہ صرف میری حد تک ہی طے ہوئے ہیں اور کسی دوسرے فریق کو اس کی سُن گُن ہی نہیں ہے لیکن میرے طے کیے ہوئے معاملات پر سب کو اتفاق کرنا ہی پڑے گا کیونکہ میری انگلیاں معاملات اور مسائل کی نبض پر ہی ہوتی ہیں اور اگر یہ نبض ڈوبنے لگے تو مجھے اس کا بھی پتا چل جاتا ہے چنانچہ قوم کو چاہیے کہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر عام انتخابات کی تیاری کرے‘ بیشتر اس کے کہ میں اپنا ارادہ تبدیل کر لوں کیونکہ بڑے لیڈر کی نشانی یہ بھی ہے کہ وہ کسی وقت بھی یوٹرن لے سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
قوم پوچھتی ہے کہ لاڈلے کو کب
تک رعایت ملے گی: حافظ حمد اللہ
پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ ''قوم پوچھتی ہے کہ لاڈلے کو کب تک رعایت ملے گی‘‘ اور اس سلسلے میں جلد از جلد مجھے آگاہ کیا جائے کیونکہ میں نے قوم کو اس کا جواب بھی دینا ہے حالانکہ قوم کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا کیونکہ یہ رعایت دینے والوں کا اپنا اختیار ہے اور مجھ سمیت قوم کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور جب سے قوم نے ہر بات میری معرفت پوچھنا شروع کی ہے‘ میری مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا ہے اور میرے پاس سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز فنانشل ٹائمز کی سٹوری پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
وفاق کو صرف اقتدار بچانے کی
فکر ہے، عوام کی نہیں: حسان خاور
تحریک انصاف کے رہنما حسان خاور نے کہا ہے کہ ''وفاق کو صرف اقتدار بچانے کی فکر ہے، عوام کی نہیں‘‘ حالانکہ اقتدار تو صرف دھوپ چھاؤں ہے جو آتا جاتا رہتا ہے جبکہ عوام کو اپنی فکر خود بھی کرنی چاہیے جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں اور اگر کچھ کریں بھی تو زیادہ سے زیادہ مکھیاں مارنے لگتے ہیں حالانکہ ان بے زبانوں نے ان کا کیا بگاڑا ہے جو کچھ کھاتی نہیں بلکہ کھانے پر صرف بھنبھناتی رہتی ہیں یا ناک پر بیٹھ جاتی ہیں جس سے ناک کا کچھ نہیں بگڑتا‘ بلکہ یہ مکھی پر مکھی بھی مارا کرتے ہیں جس سے مکھیوں کی نسل ہی کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ یہ قانونِ تحفظِ حیوانات کے تحت جرم بھی ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کر رہے تھے۔
لاڈلے کے لیے انصاف کا خاص معیار، اس
کا ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے: طلال چودھری
نواز لیگ کے رہنما طلال چودھری نے کہا ہے کہ ''لاڈلے کے لیے انصاف کا خاص معیار ہے، اس کا ہر گناہ معاف ہو جاتا ہے‘‘ جبکہ ہمارے ایک معمولی سے گناہ پر ہی اتنی پکڑ دھکڑ ہو رہی ہے حالانکہ روپیہ پیسہ تو سارا ہاتھ کا میل ہے اور ہاتھ بھی میلے کسی مجبوری کی وجہ سے ہو جاتے ہیں ورنہ ہاتھوں کو میلا کچیلا رکھنا کسے پسند ہے اور یہ جرم ابھی تک ثابت بھی نہیں ہوا کیونکہ یہ وائٹ کالر مشاغل میں سے ایک ہے جس کا ثابت ہونا ممکن ہی نہیں ہے اور نیب وغیرہ نے پورا زور بھی لگا کر دیکھ لیا ہے جس کی دیگر مصروفیات کی وجہ سے فردِ جرم لگنے میں ہی کئی سال لگ جاتے ہیں جو ابھی تک اس بے مقصد مشق پر اڑی ہوئی ہے اور ہوش کے ناخن لے ہی نہیں رہی۔ آپ اگلے روز دیگر پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
کسی بھولے نام کا ذائقہ
کسی زرد دن کی گرفت میں
کسی کھوئے خواب کا وسوسہ
کسی گہری شب کی سرشت میں
کہیں دھوپ چھاؤں کے درمیاں
کسی اجنبی سے دیار کے
میں جوار میں پھروں کس طرح
یہ ہوا چلے گی تو کب تلک
یہ زمیں رہے گی تو کب تلک
کھلے آنگنوں پہ
مہیب رات جھکی رہے گی تو کب تلک
یہ جو آہٹوں کا ہراس ہے
اسے اپنے میلے لباس سے
میں جھٹک کے پھینک دوں کس طرح
وہ جو ماورائے حواس ہے
اسے روز و شب کے حساب سے
کروں دے دماغ میں کس طرح
کوئی آنسوؤں کی زباں نہیں
کوئی ماسوائے گماں نہیں
یہ جو دھندلی آنکھوں میں ڈوبتا کوئی نام ہے
یہ کہیں نہیں
یہ کہاں نہیں
یہ قیام خواب دوام خواب
رہوں اس سے دور میں کس طرح
انہی ساحلوں پہ
تڑپتی ریت میں سو رہوں
مجھے اذن ذلت ہست ہو
آج کا مقطع
ریزہ ریزہ ہی پہچان میں تھا ظفرؔ
جانتے تھے سبھی جا بجا کون تھا