عمران خان ملکی تاریخ کے سب سے
بڑے چور ثابت ہوئے: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عمران خان ملکی تاریخ کے سب سے بڑے چور ثابت ہوئے‘‘ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بعض بزرگوں کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے وہ کبھی نہیں ٹوٹ سکتا‘ اس لیے وہ اس پر ناراض نہ ہوں کیونکہ میرا مقصد ان کو نیچا دکھانا ہرگز نہیں ہے، میرا بیان موقع کی نزاکت کے حوالے سے ہے اور مکمل طور پر ایک سیاسی بیان ہے جبکہ ایسے بیانات کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا اور نہ ہی اس طرح کے بیان کا مقصد ان بزرگوں کی کمائی میں کوئی کمی لانا ہے۔ آپ اگلے روز فنڈنگ کیس کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو
معاف نہیں کریں گے: پرویز الٰہی
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو معاف نہیں کریں گے‘‘ البتہ سیاسی منافرت پھیلانا ایک الگ مسئلہ ہے کیونکہ سیاست اس کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی اور زندہ معاشرے وہی ہوتے ہیں جو اپنی روایات کو زندہ رکھتے ہیں اس لیے ہر سیاسی جماعت اس میں حصہ ڈالنا اپنا فرض سمجھتی ہے جبکہ یہ سارا کھیل ہی منافرت کا ہے کیونکہ ایک سیاسی جماعت اگر دوسری کے خلاف منافرت نہ پھیلائے تو کامیابی اس کے قدم کیسے چھو سکتی ہے اور سیاسی جماعتوں کی کامیابی کا دارو مدار ہی اس پر ہے اس لیے اس سیاسی شربت میں جتنا گڑ ڈالیں گے یہ اتنا ہی زیادہ میٹھا ہوگا۔ آپ اگلے روز فوجی شہدا اور سیلاب میں جاں بحق ہونے والوں کے لیے خصوصی دعا اور آسٹریلوی ہائی کمشنر سے ملاقات کر رہے تھے۔
جرم ثابت ہو گیا‘ صدر علوی اور عمران خان
پارٹی چھوڑ دیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''جرم ثابت ہو گیا، صدر علوی اور عمران خان پارٹی چھوڑ دیں‘‘ اور ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں کیونکہ ہماری صورت حال پہلے ہی ایسی ہے کہ بقول شاعر ؎
کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
جبکہ صدر علوی کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ وہ صدر ہی رہیں گے کیونکہ ہمیں بھی کوئی مناسب صدر دستیاب نہیں ہو رہا اور جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے انہیں بھی اپوزیشن کی مخصوص جماعتوں کے خلاف تقریریں کرنے کی کھلی اجازت ہو گی۔ آپ اگلے روز الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
تاب دان
یہ نوید ملک کا مجموعۂ کلام ہے جسے راولپنڈی سے شائع کیا گیا ہے۔ انتساب کچھ اس طرح ہے: اپنے والدین مرحومین کے نام جن سے ایک دن اللہ کی رحمتوں کے سائے تلے ملاقات ہوگی، بیگم اور سلمان علی، عرفان علی، محمد عبدالرحمن کے لیے محبتیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر کے ساتھ امجد اسلام امجدؔ کے قلم سے ہے‘ جن کے مطابق: نوید ملک کے اس شعری مجموعے کی سب سے پہلی اور نمایاں خوبی تو یہی ہے کہ اس کی تقریباً ہر غزل میں جدت پسندی کے باوجود اچھے اور یاد رہ جانے والے اشعار جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے جو نثری نظم کی شکل میں ہے۔ اندرونِ سرورق آفتاب قمر زیدی اور قمر بدر پوری (دہلی، بھارت) کا تحریر کردہ ہے۔ نمونۂ کلام:
کب ستاروں سے ہو کے آئی ہے
صبح تو میں نے خود بنائی ہے
میں نے پہلے ہوا کا شور پیا
روشنی بعد میں اٹھائی ہے
اور‘ اب آخر میں ادریس بابر کی شاعری:
اتواریہ
ایڈ کھاتے رہے، اوپ ایڈ لگاتے بھی رہے
ویسے ظالم کی حمایت تو کبھی کی ہی نہیں
آپ نے نور کی رفتار پہ قابو پایا
دُور اذہان سے ظلمت تو کبھی کی ہی نہیں
اپنی مردود سی لابی کے لوگ دو چار
صوفوں سے اُٹھنے کی زحمت تو کبھی کی ہی نہیں
مگر انسان کی خدمت تو کبھی کی ہی نہیں
ٹکریں ماریں‘ عبادت تو کبھی کی ہی نہیں
وقت پر پیدا ہوئے اور اچانک مر گئے
لوگوں نے جینے کی زحمت تو کبھی کی ہی نہیں
ٹین ایجر سبھی افلاک سے نازل ہوئے ہیں
ممی ڈیڈی نے شرارت تو کبھی کی ہی نہیں
واؤ یا وائے کریں، راستا انجوائے کریں
درج دفتر میں شکایت تو کبھی کی ہی نہیں
اُس کی جانب سے بھی چاہا ہے برابر خود کو
میں نے یک طرفہ محبت تو کبھی کی ہی نہیں
آج کا مطلع
ترے لبوں پہ اگر سرخیٔ وفا ہی نہیں
تو یہ بناؤ یہ سج دھج تجھے روا ہی نہیں