بڑھتی مہنگائی‘ تیل کی قیمت میں
اضافے پر تحفظات ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بڑھتی مہنگائی‘ تیل کی قیمت میں اضافے پر تحفظات ہیں‘‘ اگرچہ یہ سارا کچھ میری حکومت اور وزارتِ عظمیٰ کے ماتحت ہی ہو رہا ہے لیکن میرے تحفظات بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں جو عوام کی تسلی کے لیے کافی ہونے چاہئیں کیونکہ جب ان پر میری طرف سے پوری تسلی موجود ہے تو یہ عوام کی تسلی کے لیے بھی کافی ہونے چاہئیں اور اگر میں ان تحفظات کا اظہار بھی نہ کرتا تو یہ ضرور عوام کے ساتھ زیادتی ہوتی اور میں چونکہ عوام کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کر سکتا اس لیے یہ بیان جاری کیا اور امید ہے کہ عوام اسے دل سے سراہیں اور حکومت کو دعائیں دیں گے۔ آپ اگلے روز اقوام متحدہ کے پاکستان میں ریذیڈنٹ کوآرڈینیٹر سے ملاقات کر رہے تھے۔
شہباز گل کا بیان قابلِ قبول نہیں ہو سکتا: فیصل جاوید
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید نے کہا ہے کہ ''شہباز گل کا بیان قابلِ قبول نہیں ہو سکتا‘‘ اور کئی روز کے غور و خوض کے بعد میں اسی نہج پر پہنچا ہوں کہ یہ بیان قابلِ قبول نہیں ہے چونکہ ہم ہر بات پر غور و خوض کرنے کے بعد ہی اس پر بیان دیتے ہیں‘ چاہے یہ سلسلہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو جائے کیونکہ یہ غورو خوض جتنا طویل ہوگا، اتنا ہی مناسب ہوگا حالانکہ پہلے یہ بیان قابلِ قبول لگا تھا لیکن جب میں نے غور و خوض کیا تو لگا کہ اس میں ضرور کوئی گڑ بڑ موجود ہے اور اس پر مسلسل غور و خوض کی ضرورت ہے؛ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اس کا مثبت نتیجہ اب سب کے سامنے ہے۔ آپ اگلے روز سینیٹ اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
اب تو پیسے مانگتے شرمندگی ہوتی ہے: وزیر خزانہ
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''اب تو پیسے مانگتے شرمندگی ہوتی ہے‘‘ لیکن یہ مانگا بھی جا رہا ہے کیونکہ پیسہ اپنی جگہ ہے اور شرمندگی اپنی جگہ، اس لیے انہیں ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں کیا جا سکتا اور یوں دونوں کا کام چلتا رہتا ہے کیونکہ اگر شرمندگی کو آڑے آنے دیں تو پیسہ آنا بند ہو جاتا ہے اور حکومت کی چلتی ہوئی گاڑی رُک جاتی ہے اور شرمندگی ہی باقی رہ جاتی ہے؛ اگرچہ حکومت اس کی زیادہ پروا نہیں کرتی کیونکہ اگر یہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کی پروا کرنے لگ جائے تو حکومت کی گاڑی پوری رفتار سے کیسے چل سکتی ہے؟ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
وفاقی حکومت صحافیوں کے خلاف غیر قانونی
کارروائیاں بند کرے: یاسمین راشد
سابق وزیر صحت پنجاب اور تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''وفاقی حکومت صحافیوں کے خلاف غیر قانونی کارروائیاں بند کرے‘‘ کیونکہ صحافیوں کے خلاف جو کارروائیاں پہلے ہو چکی ہیں‘ ان کے لیے وہی کافی ہیں اور جن میں کچھ حصہ ہم نے بھی ڈالا تھا؛ اگرچہ ہم نے اور بھی بہت سے کام کیے تھے جن کا ذکر کرنا اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم نے اپنے کارناموں پر فخر کبھی نہیں کیا اور اپنے انکسار اور عاجزانہ موڈ ہی میں مست رہتے ہیں جبکہ صحافیوں نے پہلے بھی بہت زور و شور سے آزادیٔ صحافت کے نعرے بلند کیے تھے مگر یہ ان کی پرانی عادت ہے اس لیے پہلی فرصت میں انہیں اچھی عادتیں اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز لاہور پریس کلب کے سامنے نکالی گئی ریلی سے خطاب کر رہی تھیں۔
اداروں کے خلاف مہم بھارت اور پی ٹی آئی
کا مشترکہ پروجیکٹ ہے: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''اداروں کے خلاف مہم بھارت اور پی ٹی آئی کا مشترکہ پروجیکٹ ہے‘‘ جس پر یقین کرنے کو جی نہیں چاہتا کیونکہ بھارت‘ خاص طور پر مودی جی کے ساتھ خصوصی اور گہرے تعلقات کسی اور کے ہیں اور ان کے وہاں پر کئی پروجیکٹس پہلے سے ہی چل رہے ہیں اور یہ بات دنیا بھر کو معلوم بھی ہے اس لیے پی ٹی آئی بھارت کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی ناکام کوشش نہ کرے اور کسی دوسرے کے کام میں ٹانگ اڑانے سے باز رہے جبکہ بھارت بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کے ساتھ تعلقات بڑھانے میں دلچسپی نہیں رکھتا ہو گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں قمر رضا شہزاد کی غزل:
کوئی بتائے کیا سے کیا پتا نہیں
مجھے کسی کے اصل کا پتا نہیں
میں خیر بانٹنے میں کتنا محو ہوں
مجھے کوئی برا بھلا پتا نہیں
زمیں کی تہہ میں آسماں کے اس طرف
مجھے کہاں وہ رکھ گیا‘ پتا نہیں
مرے لیے بنائی تو نے کائنات
مگر مرا کہیں اتا پتا نہیں
چہار سمت میں ہوں اور کمال ہے
مرے سوا کوئی بھی لاپتا نہیں
مرے لیے کوئی نہیں ہے ناگزیر
تجھے بھی چھوڑ دوں مرا پتا نہیں
گناہ تو معاف ہو گئے مگر
میں کیوں نہیں ہوا رہا‘ پتا نہیں
آج کا مقطع
اس بڑھاپے میں بھی ظفرؔ آ کر
کوئی دیکھے جوان کا ممکن