ہم نے اپنا گردہ نکال کر معیشت کو لگایا: احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ہم نے اپنا گردہ نکال کر معیشت کو لگایا‘‘ جس کا فائدے کے بجائے نقصان ہوا کیونکہ جو کام ہم نے اپنے ادوار میں بڑے دل گردے سے کیے تھے‘ کثرتِ استعمال سے ہمارا گردہ اسی معیشت کی وجہ سے بیمار ہو گیا تھا اور دراصل ہم نے معیشت کو لگا کر ہی اس سے جان چھڑائی تھی، حتیٰ کہ اب تو یہ سیخ پہ لگانے تک کے بھی قابل نہیں رہا تھا کہ اسے بھون کر کھایا ہی جا سکتا جبکہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمیں اپنے لیے کوئی صحتمند گردہ دستیاب ہی نہیں ہوا اور ہم گردے کے بغیر ہی وقت پورا کر رہے ہیں اور معیشت کا الگ تیا پانچا ہو رہا ہے یعنی نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
کرپٹ حکومت سے عوام کو جلد
نجات ملے گی: پرویز خٹک
سابق وزیر دفاع اور تحریک انصاف کے رہنما پرویز خٹک نے کہا ہے کہ ''کرپٹ حکومت سے عوام کو جلد نجات ملے گی‘‘ حالانکہ ہم نے تو پھر بھی ساڑھے تین‘ پونے چار سال نکال لیے تھے؛ تاہم یہ حکومت کچھ زیادہ ہی جلد بازی کا شکار نظر آتی ہے اس لیے اصولی طور پر اس سے جلد چھٹکارا حاصل ہونا چاہیے، اگرچہ تھوڑا بہت کرپٹ ہونا ہر حکومت کی مجبوری ہوتی ہے؛ تاہم ایک حد سے زیادہ کا کوئی جواز نہیں ہے بیشک کم یا زیادہ کا اندازہ آسانی سے نہیں لگایا جا سکتا لیکن قدرتی بات ہے کہ اپنی نسبت دوسرا زیادہ کرپٹ لگتاہے اور یہ چونکہ قدرتی بات ہے اور قدرت کا مقابلہ کسی طور نہیں کیا جا سکتا ا ورایسا ہم کر بھی نہیں سکتے۔ آپ اگلے روز نوشہرہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
طاقتور قوتیں سمجھتی ہیں نظام ان کے
ہاتھ میں ہونا چاہیے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''طاقتور قوتیں سمجھتی ہیں نظام ان کے ہاتھ میں ہونا چاہیے‘‘ حالانکہ یہ یا تو کسی کی خوش فہمی ہے یا کسی کی غلط فہمی کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ چھوٹی موٹی تبدیلی کے لیے بھی ان کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے اور حکومت تو ویسے بھی کسی قابل نہیں رہ گئی اور سڑکیں ناپ ناپ کر اپنا یہ حال کر لیا ہے کہ نہ آگے جانے جوگی رہ گئی ہے اور نہ پیچھے، اور اب ایک جھونکے پر ہی بوریا بستر لپیٹنا پڑ سکتا ہے اور وہ ہم نے پہلے ہی باندھ کر رکھا ہوتا ہے تاکہ خواہ مخواہ کی مشقت نہ اٹھانی پڑے۔ آپ اگلے روز پشاور میں ایک اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
سازشی ٹولے نے عوام کا بھرکس نکال دیا: عمر سرفراز
مشیرِ اطلاعات حکومت پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ ''سازشی ٹولے نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے‘‘ اور نکلے ہوئے اس بھرکس سے جگہ جگہ گند پھیلا ہوا ہے اور ساری فضا مکدر ہو کر رہی گئی ہے جبکہ صفائی ستھرائی کا نظام پہلے ہی پریشان کن حد تک خراب ہو چکا ہے اس لیے حق تو یہ ہے کہ عوام اپنا بھرکس خود صاف کریں کیونکہ اس اضافی ذمے داری نے پنجاب حکومت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے جو مہنگائی کی وجہ سے پہلے ہی ٹوٹی ہوئی تھی اور اسے کس کر باندھنے میں بھی کافی مشکلات پیش آ رہی ہیں اوپر سے اس بھرکس نے بالکل ہی بھٹہ بٹھا دیا ہے۔آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
کپتان نے کھل کر لڑنے کا فیصلہ کر لیا: تجزیہ کار
ایک سیاسی تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ''کپتان نے کھل کر لڑنے کا فیصلہ کرلیا‘‘ حالانکہ اس میں بہت سے خطرات پوشیدہ ہیں کیونکہ کھلنے سے جسم کا پرزہ پرزہ علیحدہ ہو جاتا ہے جسے دوبارہ جوڑنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور اس دوران کوئی پرزہ اِدھر اُدھر بھی ہو سکتا ہے اس لیے کھلنے سے لڑنا تو کجا‘ آدمی اٹھنے بیٹھنے کے بھی قابل نہیں رہتا اس لیے کپتان کو چاہیے کہ کھلنے سے احتراز کریں اور اپنے آپ کو خواہ مخواہ کی مصیبت نہ ڈالیں کیونکہ سارے پرزے مل کر ہی لڑ سکتے ہیں اور اگر وہ اپنے کھلے ہوئے پرزے ہی تلاش کرتے رہ جائیں گے تو پھر لڑ کیسے سکیں گے؟ اس لیے انہیں اس حکمتِ عملی پر غور کر نا چاہیے۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی شاعری:
بیاں اس کی زبوں حالی کروں گا
میں جس دن یہ بدن خالی کروں گا
مرے سورج کو گرہن لگ چکا ہے
میں صبحیں اور کیا کالی کروں گا
بہت ٹوٹا تو ہوں اندر سے‘ لیکن
میں باتیں حوصلے والی کروں گا
اکیلے میں بھی خواہش تخلیے کی
بجا کر اور کیا تالی کروں گا
یہ چوکیدار چوروں سے ملے ہیں
میں اپنی آپ رکھوالی کروں گا
دِیوں کا کیا ہے‘ از راہِ تفنن
جلا کر گھر یہ دیوالی کروں گا
ہرے رکھتا ہوں اپنے زخم سارے
کہاں تک اور ہریالی کروں گا
لہو میں جس قدر سرخی بچی ہے
شفق میں اس قدر لالی کروں گا
آج کا مطلع
مقبول عوام ہو گیا میں
گویا کہ تمام ہو گیا میں