وہ سیاست کسی کام کی نہیں جو عوام کے کام نہ آئے: مریم
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وہ سیاست کسی کام کی نہیں جو عوام کے کام نہ آئے‘‘ جبکہ گزشتہ تیس‘ پینتیس سال سے ہماری سیاست عوام کے کام آ رہی ہے کیونکہ عوام نے کسی دوسرے کی سیاست سے اتنا سبق حاصل نہیں کیا جتنا ہماری سیاست سے کیا ہے اورجس سے وہ تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر فراٹے بھرتے ہوئے جا رہے ہیں جبکہ سبق حاصل کرنا ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے جو ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہیے، نیز ہماری کارگزاریوں کی وجہ سے جو مہنگائی اور عدم تحفظ پیدا ہوا ہے ان سے عوام کو صحیح معنوں میں چھٹی کا دودھ یاد آ گیا ہے اور انہوں نے بھی کفایت شعاری اختیار کر لی ہے جو پہلے اللے تللوں اور فضول خرچیوں میں پڑے ہوئے تھے۔ آپ اگلے روز تونسہ میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہی تھیں۔
متاثرینِ سیلاب کو مشکل گھڑی
میں تنہا نہیں چھوڑیں گے: ہاشم ڈوگر
وزیر داخلہ پنجاب کرنل (ر) ہاشم ڈوگر نے کہا ہے کہ ''متاثرینِ سیلاب کو مشکل گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘ اول تو اس ضمن میں جتنی سیاسی جماعتوں، رہنماؤں اور مخیر حضرات نے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے، انہیں تنہا کون کہہ سکتا ہے بلکہ ساتھ کھڑے ہونے والوں کی کثرت سے متاثرین گھبرا کر رہ جائیں گے، اس لیے میرے اس بیان کو رسمی ہی سمجھا جائے کیونکہ ہم انہیں کسی نئی آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتے کیونکہ اصل میں تو اُنہیں شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے بجائے امداد کی ضرورت ہے کیونکہ ساتھ کھڑے ہونے کی صورت میں جگہ بھی چاہیے ہو گی جبکہ متاثرین کو تو اپنے کھڑے ہونے کے لیے بھی جگہ دستیاب نہیں ہے اور یہ کسی طرح سے بھی اُن کی خدمت نہیں ہوگی۔ آپ اگلے روزقصور میں سیلاب زدگان کے لیے فنڈر یزنگ مہم میں حصہ لے رہے تھے۔
نیشنل ڈونرز کی صرف 500ملین
کی کمٹمنٹ مایوس کن ہے: اسحق ڈار
سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار نے کہا ہے کہ ''نیشنل ڈونرز کی صرف 500ملین کی کمٹمنٹ مایوس کن ہے‘‘ اور جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ لوگ اب اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ماضی میں ہمارے قائد کی ''قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ مہم سب کے سامنے ہے جس کی ایک ایک پائی قائدِ محترم نے نہایت تسلی سے ازخود سوچ سمجھ کر استعمال کی تھی کیونکہ وہ بھی کسی دوسرے پراعتبار نہیں کرتے تھے اور کسی کو عوام کے پیسوں کے حوالے سے کوئی فکرمندی نہیں ہے اور قائدِ محترم سے بڑا امین اور کوئی نہیں ہو سکا۔ بقول شاعر ع
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
آپ اگلے روز لندن میں ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
قوم کا سوال ہے کہ شریف خاندان نے
سیلاب متاثرین کو کتنی امداد دی: مسرت چیمہ
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ '' قوم کا مریم نواز سے سوال ہے کہ شریف خاندان نے سیلاب متاثرین کو کتنی امداد دی‘‘ اگرچہ ان کی نیک کمائی ایسے کاموں پر خرچ کرنے کے لیے نہیں ہے اور سب کچھ انہوں نے قوم کے لیے ہی بچا کر رکھا ہوا ہے اور اگر وہ سیلاب زدگان پر یہ رقم خرچ کر دیتے تو اس کا نقصان یہ ہونا تھا کہ قوم نے اس ریلیف فنڈ میں حصہ ڈالنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی تھی، نیز متاثرین کی ہمدردی میں انہوں نے جتنی تقریریں کی ہیں، سیلاب زدگان کے لیے وہی کافی ہونی چاہئیں اور متاثرین کے لیے ان کے دلوں میں جس قدر غم اور پریشانی ہے‘ اس کا ابھی اندازہ لگانا بے حد مشکل ہے کیونکہ جس تن لاگے سو تن جائے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
آئی ایم ایف‘ بھارت کے سوا تمام ممالک
نے ہمیں ووٹ دیا: مفتاح اسماعیل
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''آئی ایم ایف کے معاملے میں بھارت کے سوا تمام ممالک نے ہمیں ووٹ دیا‘‘ حالانکہ ایسا کرتے وقت اسے میاں صاحب کا ہی کچھ خیال کر لینا چاہئے تھا اور ہو سکتا ہے کہ غلطی سے ایسا ہو گیا ہواور بھارت بہت جلد اس کوتاہی پر معذرت کا بھی اعلان کر دے۔ اگرچہ بھارت نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ تجارت کا کوئی امکان نہیں ہے جبکہ ہم نے اعلان کر دیا ہے کہ بھارت سے ٹماٹر‘ پیاز درآمد کیے جا سکتے ہیں جبکہ بھارت کے لیے اتنی طوطا چشمی اچھی نہیں ہے اور ہمارا خیال ہے کہ میاں صاحب کو اس قطع رحمی کا دبے لفظوں میں نوٹس ضرور لینا چاہئے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
اور‘ اب آخر میں سید عامر سہیل کی پنجابی شاعری:
ہنجو ہنجو کیرے دا
وارث کون سویرے دا
مینہ، شرینہ تے وال ترے
سُفنا اَنکھ دے ڈیرے دا
تُبکا تُبکا، سانبھ کے رکھ
نا کر مان بتھیرے دا
یا فلکاں یا پلکاں وچ
ایہناں داج ہنیرے دا
اَٹھ دَس ورھیاں دا مہمان
جھیڑا تیرے میرے دا
٭......٭......٭
ٹُردیاں اکھاں
ساہ لے لے کے بُھر دیاں اکھاں
ٹُردیاں اکھاں
ہرے جزیرے
اکھاں بِٹ بِٹ تکن ہیرے
ہرے جزیرے
پریت نی کُڑیے
فجراں وانگوں نیت نی کُڑیے
پریت نی کُڑیے
سینہ سُوہا
مائیں اج تے کھول دے بوہا
سینہ سوہا
آج کا مقطع
آبا تو ظفرؔ نہیں تھے ایسے
پھر شعر شعار کیوں ہوا ہے