"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اورڈاکٹر ابرار احمد

وزیراعظم صاحب آپ نے ہر
پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم صاحب آپ نے ہر پاکستانی کا سر فخر سے بلند کر دیا‘‘ حالانکہ آپ ان سروں کو اپنے سابقہ ادوار میں پہلے ہی اتنا بلند کر چکے ہیں کہ اس کی مزید ضرورت ہی نہیں تھی بلکہ یہ فخر سے اس قدر بلند ہو گئے ہیں کہ انہیں اب بعض چھوٹی چیزیں نظر ہی نہیں آتیں جبکہ فخر کی اس بلندی میں والد صاحب کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اب وہ رہی سہی کسریں نکالنے کے لیے واپس آنا چاہتے ہیں لیکن آپ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکے ماسوائے نیب قوانین میں ترمیم کے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم ہر حربہ آزما بیٹھی، عمران خان
پر کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا: عمر سرفراز
مشیر وزیراعلیٰ پنجاب عمر سرفراز نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم ہر حربہ آزما بیٹھی‘ عمران خان پر کوئی الزام ثابت نہیں کر سکی‘‘ کیونکہ ایک تو ملکِ عزیز میں الزام ثابت ہونے یا کرنے کا رواج ہی نہیں ہے بلکہ فردِ جرم لگنے میں بھی کئی سال لگ جاتے ہیں اور اربوں کے اثاثے اور بینک اکاؤنٹس ہونے کے باوجود‘ حتیٰ کہ منی ٹریل نہ دے سکنے کے بعد بھی جرم ثابت نہیں ہوا اس لیے پی ڈی ایم نے محض اپنا وقت ضائع کیا ہے اور اب نیب قوانین میں ترمیم کے بعد تو ان خوش خیالیوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے جبکہ عمران خان کو راہِ راست پر لانے کیلئے جو دیگر طریقے موجود ہیں‘ انہیں آزمایا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پانی کو گھما کر تربیلا، بھاشا ڈیم کیسے پہنچائیں: مراد علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ''پانی کو گھما کر تربیلا‘ بھاشا ڈیم کیسے پہنچائیں؟‘‘ کیونکہ یہ انسانی بس کی بات ہی نہیں ہے ہمارے ایک ہرفن مولا ایسا کر سکتے ہیں لیکن وہ اپنے ڈیرے جمانے کے لیے سفر اختیار کر رہے ہیں ورنہ یہ اُن کے بائیں ہاتھ کا کام تھا، یہاں تک کہ دائیں ہاتھ کو پتا تک نہ چلتا اور وہ ایسا کرکے دکھا دیتے اور جب تک وہ پنجاب اور کے پی کی حکومتوں کو گرا نہیں لیتے‘ ان کی وہاں سے واپسی کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے اور یہ ان کی ترجیحات کا سوال بھی ہے کیونکہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کونسا کام کس وقت کرنا ہے بلکہ اُن کے اکثر کام تو اپنے آپ بھی ہو جایا کرتے ہیں۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عوام تنگ ہیں، ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے: برجیس طاہر
حکومتی رکن قومی اسمبلی برجیس طاہر نے کہا ہے کہ ''عوام تنگ ہیں‘ ہمیں جھوٹ بولنا پڑتا ہے‘‘ اگرچہ جھوٹ بولنے کی کافی پریکٹس ہمیں پہلے ہی حاصل ہے لیکن اب تو ہمیں سفید جھوٹ بھی بولنا پڑتا ہے اگرچہ جھوٹ کسی رنگ کا بھی ہو‘ جھوٹ ہی ہوتا ہے اور اگرچہ اس کے پاؤں نہیں ہوتے لیکن یہ اپنا مطلوبہ فاصلہ آن کی آن میں طے کر سکتا ہے اور جھوٹ ہمیں اس لیے بھی بولنا پڑتا ہے کہ سیاستدانوں کو اس کی عادت پڑ جاتی ہے جبکہ ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سو جھوٹ اور بولنا پڑتے ہیں لیکن وہ پھر بھی جھوٹ ہی رہتا ہے کیونکہ یہ ہم سیاستدانوں کے برعکس ایک مستقل چیز ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ا جلاس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
عمران کو گرفتار کیا گیا تو حالات قابو
میں نہیں رہیں گے: محمود الرشید
وزیر بلدیات پنجاب میاں محمود الرشید نے کہا ہے کہ ''عمران کو گرفتار کیا گیا تو حالات قابو میں نہیں رہیں گے‘‘ اگرچہ حالات پہلے ہی ہمارے قابو سے باہر ہو رہے ہیں کیونکہ کسی چیز کو قابو میں رکھنے کے لیے ہاتھوں کا شکنجہ مضبوط ہونا چاہیے اس لیے زیادہ امکان یہی ہے کہ پہلے ہمارے اپنے حالات قابو سے باہر ہوں گے اور اس کے بعد ملک کے‘ اگرچہ ملکی حالات کو قابو میں رکھنے والوں کے ہاتھوں کا شکنجہ کافی مضبوط واقع ہوا ہے اس لیے اگر عمران کی گرفتاری کے بعد بھی حالات قابو سے باہر نہ ہوئے تو یہ ایک قابلِ تشویش بات ہوگی اور ہماری تشویش میں خواہ مخواہ اضافہ کرے گی۔ آپ اگلے روز مریدکے میں پنجاب ورلڈ سٹی بینک کے افتتاح کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
بہت دور تک یہ جو ویران سی رہ گزر ہے
جہاں دھول اڑتی ہے صدیوں کی بے اعتنائی میں
کھوئے ہوئے قافلوں کی صدائیں بھٹکتی ہوئی
پھر رہی ہیں، درختوں میں، آنسو میں
صحراؤں کی خامشی ہے
ادھڑتے ہوئے خواب ہیں
اور اڑتے ہوئے خشک پتے
کہیں ٹھوکریں ہیں صدائیں ہیں
افسوں ہے سمتوں کا حدِ نظر تک
یہ تاریک سا جو کرہ ہے
افق تا افق جو گھنیری ردا ہے
جہاں آنکھ میں تیرتے ہیں زمانے
کہ ہم ڈوبتے ہیں تو اس میں
تعلق ہی، وہ روشنی ہے
جو انساں کو جینے کا رستہ دکھاتی ہے
کندھوں پہ ہاتھوں کا لمس گریزاں ہیں
ہونے کا مفہوم ہے غالباً
وگرنہ وہی رات ہے چار سو
جس میں ہم تم بھٹکتے ہیں
اور لڑکھڑاتے ہیں، گرتے ہیں
اور آسماں، ہاتھ اپنے بڑھا کر
کہیں ٹانک دیتا ہے ہم کو
کہیں پھر چمکتے، کہیں ٹوٹتے ہیں
آج کا مطلع
خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا
کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں