عمران کے امریکہ مخالف بیانیے
سے نقصان پہنچا: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران کے امریکہ مخالف بیانیے سے نقصان پہنچا‘‘ جس کی بدترین مثال امریکہ کو اڈے دینے سے صاف انکار ہے جبکہ امریکی اینکر کی جانب سے سوال پر ''ایبسولوٹلی ناٹ‘‘ کہنا تو انتہائی نامناسب تھا کیونکہ حیلے بہانے اور لارا لپّا لگانے سے بھی کام چل سکتا تھا اورہمارا اس حوالے سے موقف نہایت واضح ہے کہ ''بیگرز‘‘ اس طرح کے فیصلوں کا اختیار نہیں رکھتے اور عمران خان نے اس مخالف بیانیے کا مزہ بھی چکھ لیا ورنہ ہمیں چانس ملنے کا تو دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا، اسے کہتے ہیں کہ جیسا کرو گے‘ ویسا بھرو گے۔ آپ اگلے روز لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
مسئلہ کشمیر کے لیے نعرے بازی نہیں
عملی اقدامات کی ضرورت ہے: چودھری شجاعت
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''مسئلہ کشمیر کے لیے نعرے بازی نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے‘‘ اور جس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہلہ بول دیا جائے کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اور اگر ضرورت پڑے تو انتہائی اقدام سے بھی گریز نہ کیا جائے اور اس سے روز روز کی کِل کِل بھی ختم ہو جائے گی، نیز زندہ قوموں نے اگر زندہ رہنا ہے تو وقار کے ساتھ ہی زندہ رہ سکتی ہیں اور جہاں تک نعرے لگانے کا تعلق ہے تو بلہ بولتے وقت نعرہ بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز فرینڈز آف کشمیرکی چیئرپرسن غزالہ حبیب سے ملاقات کر رہے تھے۔
کوئی شہری اگرخود کو ٹھیک نہیں سمجھتا
تو علاج کرا سکتا ہوں: احسن بھون
صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا ہے کہ ''کوئی شہری اگرخود کو ٹھیک نہیں سمجھتا تو علاج کرا سکتا ہوں‘‘ بلکہ خود بھی یہ خدمت سرانجام دینے کو تیار ہوں جس کے لیے چند کشتے بھی تیار کر لیے گئے ہیں کیونکہ اب میرے پیشے سے ویسے بھی کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں گھر کا خرچہ چلانا روز بروز مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ اطلاع کے مطابق پاکستان کا ہر تیسرا شہری بیمار ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی کی خوشیوں سے یکسر محروم چلا آ رہا ہے اور یہ بہت بدقسمی کی بات ہے اور یہ بیان بھی اسی نیت سے دیا جا رہا ہے کہ ہر خاص و عام کو اطلاع ہو جائے۔ ''پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی‘‘۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کوشش کر رہے ہیں
کہ احتیاط سے کام لیں: افتخار درانی
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما افتخار درانی نے کہا ہے کہ ''عمران خان کوشش کر رہے ہیں کہ احتیاط سے کام لیں‘‘ اگرچہ یہ ان کی طبع کے سراسر خلاف ہے اور انہوں نے احتیاط سے کم کم ہی کام لیا ہے لیکن ہم نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ یہ نسخہ بھی آزما کر دیکھیں جس پر وہ نیم دلی سے راضی بھی ہو گئے ہیں لیکن شاید وہ اس انتہائی مشکل کام سے عہدہ برآ نہ ہو سکیں کیونکہ یہ ان کی مستقل مزاجی کے سراسر خلاف ہے اور وہ کم از کم اس مسئلے پر یوٹرن نہیں لے سکتے لیکن یہ کرشمہ رونما بھی ہو سکتا ہے اس لیے ہم کچھ زیادہ مایوس نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شامل تھے۔
ثابت ہو چکا عمران خان ملکی مفاد
کے خلاف ہیں: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''ثابت ہو چکا عمران خان ملکی مفاد کے خلاف ہیں‘‘ اور چونکہ وہ ہمارے سیاسی مفاد کے خلاف ہیں اور ہم اپنے مفاد کو ملکی مفاد ہی سمجھتے ہیں اس لیے اُن کے ملکی مفاد کے خلاف ہونے کے اس سے زیادہ ثبوت کی ضرورت نہیں ہے اور ان کا یہ پروگرام بھی سب پر عیاں ہے کہ اگلے الیکشن میں ہم سب کا صفایا ہو جائے اور یہ صاف نظر بھی آ رہا ہے اس لیے اگر عمران خان کو ملکی مفاد عزیز ہے تو انہیں ایسی خواہش سے باز آ جانا چاہئے کیونکہ اگر ہم نہ ہوں گے تو یہ سب ٹھیک کچھ کیسے ہو سکے گا جو ہم نے اب تک کیا ہے۔ آپ اگلے روز مینگورہ میں صحافیوں سے خصوصی گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ضمیر طالب کی غزل:
چاہئے تو تھیں گرمی آنکھیں دوست
تم ہولے آئے سردی آنکھیں دوست
گھومتا پھر رہا ہوں میں لیکن
اک جگہ پر ہیں میری آنکھیں دوست
بولتی ہیں نہ سنتی ہیں کچھ بھی
ہو گئیں گونگی‘ بہری آنکھیں دوست
میں تو داناؤں کا بھی دانا تھا
پر ملیں مجھ کو پگلی آنکھیں دوست
اتنے آلودہ منظروں میں بھی
کیسے رکھتی ہو اُجلی آنکھیں دوست
ایسے لگتا ہے دل پہ لے لی ہیں
میری آنکھوں نے تیری آنکھیں دوست
تم نے دے دیں مجھے نئی آ کر
تھیں مجھے ٹھیک پہلی آنکھیں دوست
عشق ہے کام رازداری کا
اور تیری منادی آنکھیں دوست
آج کا مقطع
ظفرؔ اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم
بیاں غائب ہے اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے