امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات
کی بحالی چاہتے ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بحالی چاہتے ہیں‘‘ کیونکہ امریکہ کے حاکمانہ اور ہمارے فدویانہ رویے سے دنیا بھر میں بدنامی ہو رہی ہے؛ اگرچہ اس کی نوازشات کا دائرہ بے حد وسیع ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ ان تعلقات کا دوستانہ رنگ بھی نظر آنا چاہئے بیشک اندر اندر وہ ایسے ہی رہے کیونکہ ہمیں جو حکومت ملی ہے تو اب اسے چلانا بھی ہے جو موجودہ صورتِ حالات میں مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے اور اب چونکہ ہمارے بیشتر کام نکل چکے ہیں‘ اس لیے بھائی صاحب کی روایت پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بے وجہ جھکنے کی پالیسی کو ترک کر دینا چاہئے۔ آپ اگلے روز پاک امریکہ تعلقات کی 75ویں سالگرہ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
تاریخ کا ایک اور تاریک دن‘ تمام چوری
حلال ہو گئی ہے: تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل نے کہا ہے کہ ''تاریخ کا ایک اور تاریک دن‘ تمام چوری حلال ہو گئی ہے‘‘ اور اب ہمیں بھی اس طرف تھوڑی توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ ہم تو اب تک کرپشن اور چوری کو غلط ہی سمجھتے رہے ہیں۔ اگرچہ ہمارے کچھ ساتھی اسے کچھ اتنا برا نہیں سمجھتے اور چونکہ کسی چیز کو اچھا یا بُرا سمجھنا ہر آدمی کا بنیادی حق ہے اس لیے ہم اس سے چشم پوشی کا ارتکاب کرتے رہے ہیں اور اب سمجھتے ہیں کہ ہم کچھ اتنا ٹھیک بھی نہیں سمجھتے تھے اور انسانی سمجھ میں ردو بدل ہوتا رہتا ہے کہ یہ قدرتی چیز ہے اس لیے سمجھ کی اس تبدیلی کو ہم تہ ِدل سے خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز مریم نواز کی بریت کے فیصلے پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
قوم عمران خان کو ڈھیل دینے
کے نتائج بھگت رہی ہے: جاوید لطیف
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے اہم رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''قوم عمران خان کو ڈھیل دینے کے نتائج بھگت رہی ہے‘‘ اور اسے جلسوں میں دن رات خوار ہونا پڑ رہا ہے اورسارے کام چھوڑ کر لوگ عمران خان کی تقریر سننے کے لیے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور اگر پی ٹی آئی کا ناطقہ بروقت بند کر دیا جاتا تو عوام کا اتنا قیمتی وقت ضائع نہ ہوتا اور جس کی ذمہ دار ہر طرح سے حکومت ہے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا مکمل ادراک نہیں ہے۔ اگرچہ یہ ایک سوشل ایکٹوٹی بھی ہے جس سے عوام کو ایک دوسرے سے ملاقات کا موقع ملتا ہے مگر عوام کا اس طرح اکٹھے ہونا حکومت کے لیے ایک خطرناک بات ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
شہباز‘ زرداری حکومت میں ہر طبقے
کی کمر ٹوٹ چکی: عمر سرفراز چیمہ
مشیرِ اطلاعات پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ ''شہباز‘ زرداری حکومت میں ہر طبقے کی کمر ٹوٹ چکی‘‘ اور اب وہ سارے کام چھوڑ کر اپنی اپنی کمر درست کرانے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ اب وہ کمر سیدھی کر سکتے ہیں نہ اسے کَس سکتے ہیں اور ان کا بوجھ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہو رہا ہے جبکہ کمر مٹکا کر چلنے سے بھی وہ یکسر قاصر ہیں اور سیلاب ریلیف کے ساتھ ساتھ انہیں کمر الاؤنس بھی ملنا چاہئے حالانکہ کچھ طبقات کی کمریں تو باقاعدہ کمروں میں تبدیل ہو چکی ہیں اور حکومت کو خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی کمر کے ساتھ ساتھ کہیں ان کا دل بھی نہ ٹوٹ جائے۔ آپ اگلے روز حکومتی اقدامات پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل پنجاب
حکومت کی تبدیلی ضروری ہے: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی وطن واپسی سے قبل پنجاب حکومت کی تبدیلی ضروری ہے‘‘ کیونکہ وہ انہیں ہوائی اڈے ہی سے پکڑ سکتی ہے۔ اگرچہ مریم نواز کی بریت کے بعد حکومت نواز شریف کی معافی کے لیے بھی اپنی کوششیں تیز تر کیے ہوئے ہے جس سے بچنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں اسلام آباد ایئر پورٹ پر اتارا جائے جہاں وفاقی حکومت انہیں پوری سہولتیں فراہم کر سکتی ہے حتیٰ کہ اُن کے قیام کا بندوبست بھی اسلام آباد میں ہو سکتا ہے لیکن اگر واپسی پر اُنہیں گرفتارکر لیا جاتا ہے تو ہمارے سارے منصوبے دھرے کے دھرے ہی رہ جائیں گے اور مریم نواز کی بریت کی خوشیاں بھی ادھوری رہ جائیں گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور‘اب آخر میں یہ تازہ غزل:
جو دھیان میں بھی ہے اور دھیان میں نہیں آتا
یہ کون ہے‘ مری پہچان میں نہیں آتا
وہ جیسے دل کے کنارے پہ آ کے رُک گیا ہے
کہ در تک آ گیا‘ دالان میں نہیں آتا
ہوا کے ہاتھوں بکھرنا قبول ہے اُس کو
وہ ایک پھول جو گلدان میں نہیں آتا
وہ ہے یہیں کہیں قرب و جوار میں موجود
مگر مرے کسی امکان میں نہیں آتا
ہمیشہ دل میں ہی دھومیں مچائے رکھتا ہے
ابھی وہ شور مرے کان میں نہیں آتا
یہ دل بہت اُسے للکارتا تو ہے‘ لیکن
ہے عقلمند بھی‘ میدان میں نہیں آتا
کچھ اس کا شہر میں ہی لگ گیا ہے دل شاید
یہ وحشی اب جو بیابان میں نہیں آتا
ظفرؔ‘ اب اور بتا کیا کہیں گے اس کو‘ اگر
کہا ہوا ترا ہذیان میں نہیں آتا
آج کا مطلع
ہوا بدل گئی اس بے وفا کے ہونے سے
وگرنہ خلق تو خوش تھی خدا کے ہونے سے