ہر چیز ٹھیک ہو گئی تھی‘ یقین تھا حکومت
مجھے نہیں نکالے گی: مفتاح اسماعیل
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''ہر چیز ٹھیک ہو گئی تھی‘ یقین تھا حکومت مجھے نہیں نکالے گی‘‘ اور سب سے بڑی زیادتی یہ ہے کہ حکومت نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ مجھے کیوں نکالا ہے جس طرح میاں نواز شریف کو نہیں بتایا گیا تھا کہ انہیں کیوں نکالا گیا ہے حالانکہ ملک کی کوئی سڑک ایسی نہیں تھی جس پر جا کر انہوں نے یہ نہ پوچھا ہو، اور لگتا ہے کہ کسی چیز کا ٹھیک ہونا حکومت کو پسند ہی نہیں تھا اور میں نے زیادہ ٹھیک اسی لیے نہیں کیا تھا کہ یہ حکومت کو زیادہ ناپسند ہو گا، اس لیے حکومت کو اپنی پسند و ناپسند پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے، آگے جو قدرت کی مرضی ہو۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ڈار‘ مریم ڈیل کی نومبر میں سب
کو سمجھ آ جائے گی: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ڈار‘ مریم ڈیل کی نومبر میں سب کو سمجھ آ جائے گی‘‘ کیونکہ نومبر سے پہلے ہمارے سمیت کسی کو کسی چیز کی سمجھ نہیں آ سکتی؛ چنانچہ ہم نے سارے معاملات وقتِ مقررہ تک کے لیے ملتوی کر دیے ہیں کیونکہ لاکھ سر ٹکراتے رہیں، مقررہ وقت سے پہلے ناسمجھی کی فضا سب پر مسلط رہے گی۔ اس ایک مہینے کی یہ فضیلت حاصل کرنے کی وجہ کیا ہے جس سے دوسرے مہینوں کی توہین اور حق تلفی ہو رہی ہے، پیشتر اس کے کہ وہ اس پر باقاعدہ احتجاج شروع کر دیں جو لانگ مارچ یا دھرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے، ہم اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
پاسپورٹ واپس مل گیا‘ اللہ تعالیٰ
نے مجھے جھکنے نہیں دیا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''پاسپورٹ واپس مل گیا‘ اللہ تعالیٰ نے مجھے جھکنے نہیں دیا‘‘ حالانکہ میں تو پاسپورٹ لینے کی درخواست کرنا چاہتی تھی لیکن وفاقی حکومت اور نیب نے پاسپورٹ واپس کرنے کی مخالفت ہی نہیں کی جبکہ وفاقی حکومت نے تو مخالفت کرنی ہی نہیں تھی اور ترمیم کے ذریعے نیب کے پَر بھی پہلے ہی سے کاٹ دیے گئے تھے اس لیے مجھے نیب کی طرف سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا جبکہ میں عاجزی سے ہر کام نکلوانے کے حق میں ہوں اور اگر اس عاجزی سے انسان کا کوئی کام بھی بن رہا ہو تو اس میں کیا مضائقہ ہے؟ آپ اگلے روز پاسپورٹ واپس ملنے کے عدالتی فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں۔
قوم پی ڈی ایم مافیا کو سیاسی شہید
نہیں بننے دے گی: عمر سرفراز چیمہ
مشیر اطلاعات پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ ''قوم پی ڈی ایم مافیا کو سیاسی شہید نہیں بننے دے گی‘‘ جبکہ وہ صرف غیر سیاسی شہید بننے میں کامیاب ہو سکتی ہے کیونکہ اس کا سیاسی کردار تو کب کا ختم ہو چکا ہے، نیز سیاسی شہید بننا صرف ہمارا استحقاق ہے اور ہم جب بھی چاہیں گے‘ بن کر دکھا دیں گے جبکہ سیاست سے ہمارا اتنا لگائو ہے کہ ہم لوگ سیلاب زدگان کو قدرت کے سپرد کر کے سیاست ہی کر رہے ہیں اور لوگوں کی اکثریت کو بھی اس طرف لگا رکھا ہے، البتہ سیلاب زدگان خود اس میں حصہ لینے سے مجتنب ہیں اور جونہی وہ سیلاب وغیرہ سے فارغ ہوتے ہیں، ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ آپ اگلے روز الحمرا میں خطاطی کی نمائش کی تقریب کا افتتاح کر رہے تھے۔
ملکی سالمیت داؤ پر لگانے کی اجازت
نہیں دیں گے: رانا تنویر حسین
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے سینئر رہنما رانا تنویر حسین نے کہا ہے کہ ''ملکی سالمیت داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘ جبکہ اوّل تو کسی چیز پر داؤ لگانا ویسے بھی جوئے کی ایک شکل ہے جو خلافِ قانون ہے، دوم ہم نے دیگر کئی معاملات کی اجازت دے رکھی ہے تو اس لیے لوگوں کو اسی پر اکتفا کرنا چاہئے کیونکہ زیادہ لالچ اچھی چیز نہیں ہوتی، نیز کچھ شعبے ہم نے اپنے لیے بھی مختص کر رکھے ہیں جن میں کسی اور کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے، علاوہ ازیں ان معاملات کی اجازت کے لیے تحریری درخواست کی ضرورت ہوگی؛ اگرچہ اس کی منظور ی خاصی مشکل ہے، تاہم اسے اپنے ریکارڈ میں ضرور رکھا جا سکے گا۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
جب شانۂ مجنوں پہ کوئی سر نہیں رہنا
پھر کیا جو کسی ہاتھ میں پتھر نہیں رہنا
دریائے شب و روز نے رُخ پھیر لیا ہے
کچھ اور دنوں میں یہ برابر نہیں رہنا
اب گھر میں ہی باہر نے مجھے آن لیا ہے
لگتا ہے کہ میرا کوئی باہر نہیں رہنا
میں کون ہوں تُو کون ہے کیا عہدِ وفا ہے
اپنی کسی حالت میں سمندر نہیں رہنا
کیا جانے تجھے دیکھ کے کیا ہونے لگا ہے
شاید مری آنکھوں میں یہ منظر نہیں رہنا
جانا ہے تو رہ جانا ہے ہم نے ترے کوچے
پھر اور کسی شہر میں جا کر نہیں رہنا
اتنی تو ہوا تیز ہے کہتا ہوں کہ لکھ لو
تم نے مری اس بات سے بندھ کر نہیں رہنا
اک وقفہ نویدؔ آنا ہے مابین وگرنہ
کس نے کہا ہم نے متواتر نہیں رہنا
آج کا مقطع
میں جان و جسم ہوں گھر ہو کہ وہ گلی ہو ظفرؔ
یہاں بھی ہوتا ہوں میں اور وہاں بھی ہوتا ہوں