اعتزاز کے بیان کا مقصد سستی شہرت
حاصل کرنا ہے: خواجہ آصف
وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''اعتزاز احسن کے بیان کا مقصد سستی شہرت حاصل کرنا ہے‘‘حالانکہ جو مہنگی شہرت وہ اب تک حاصل کر چکے ہیں انہیں اس پر گزر اوقات کرنی چاہیے‘ اگرچہ اُن کے زیادہ تر بیانات ان کی اپنی ہی پارٹی کے خلاف ہوتے ہیں لیکن ہمیں اُن پر اعتراض اس لیے ہے کہ اس سے ہمارے لوگوں کو بھی پارٹی کے خلاف بیان دینے کی عادت پڑ سکتی ہے‘ اگرچہ پارٹی کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اب اس پر ایسے بیانات کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ تنقید اور تعریف سے مکمل طور پر بے نیاز ہو چکی ہے کیونکہ ہماری صرف حکومت موجود ہے‘ پارٹی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز دیگر وزرا کے ہمراہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک کمیشن خوروں کی منڈی بن چکا ہے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ملک کمیشن خوروں کی منڈی بن چکا ہے‘‘ جبکہ اسحق ڈار کی واپسی کا ایک فائدہ ضرور ہوا ہے کہ ملک میں کاروباری عناصر میں جنبش پیدا ہوئی ہے اور ان کے واپس آنے کا ایک مقصد آتے ہی پورا ہو گیا ہے جبکہ اس منڈی میں کمیشن خور علیحدہ ہیں اور اس کے آڑھتی علیحدہ اور سب اپنا اپنا کام پوری جانفشانی سے سرانجام دے رہے ہیں کیونکہ منی لانڈرنگ اب کوئی جرم نہیں رہا ہے اور کساد بازاری عام ہو رہی تھی اور یہ کمی اس منڈی سے پوری کی جا رہی ہے اور ہم اسے رشک بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں کہ اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران کا مقصد الیکشن نہیں‘ ایک تعیناتی ہے: رانا ثناء
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ''عمران کا مقصد الیکشن نہیں‘ ایک تعیناتی ہے‘‘ حالانکہ اس تعیناتی کے حوالے سے بھی اتنا خوش ہونے اور جوش و خروش دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ایک معمول کی تعیناتی ہے جو کہ ہوکر رہنی ہے جبکہ ہمیں اس کا تجربہ پہلے ہی حاصل ہے اس لیے جیسی بھی ہوتی ہے‘ عمران اس تعیناتی کو ہو جانے دیں اور باقی سارا کام اس کے مزاج پر چھوڑ دیں کیونکہ ماضی نے ایسی تعیناتیاں بڑے ذوق و شوق سے کی جاتی رہی ہیں اور اس کا نتائج بھی دیکھے جا چکے ہیں جبکہ ہم خود بھی ایسے کئی تجربات کر چکے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
احتساب کے غیر مؤثر اداروں
کو تالے لگا دیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''احتساب کے غیر مؤثر اداروں کو تالے لگا دیں‘‘ کیونکہ جو عمارتیں خالی رہیں اُن میں بھوت پریت بسیرا کر لیتے ہیں اور وہ آسیب زدہ ہو کر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو جاتی ہیں۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ خالی عمارات کی حفاظت کا ہمارے ہاں کوئی مؤثر انتظام نہیں ہے اور اس طرح قیمتی عمارتیں ضائع ہو کر کسی کام کی نہیں رہتیں جو کہ ایک قومی نقصان ہے جس سے پرہیز کرنا چاہیے جبکہ میرا فرض حکومت کو آگاہ کرنا تھا جو میں نے کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
درگز
یہ جدید لہجے کے شاعر قمر رضا شہزاد کا تازہ مجموعۂ کلام ہے جو لاہور سے شائع ہوا ہے۔ انتساب اپنے والد سید غلام مرتضیٰ مرحوم کے گلشن میں مہکتے پھولوں منہال‘ حسین‘علی مراد‘ دانش‘ ایلیا‘ حمزہ‘ عون‘ عارب‘ عروشہ‘ زرتاشیہ‘ فاطمہ‘ آئمہ اور حبہ کے نام ہے۔ پس سرورق شاعر کی تصویر اور اُن کی مطبوعہ کتابوں کے ٹائٹل درج کیے گئے ہیں جبکہ اندرونِ سرورق شاعر نے اپنی شاعری کے حوالے سے مختصر نوٹ دیا ہوا ہے۔ ابتدا میں یہ شعر درج ہیں ؎
مجھ میں بھی چھائوں کی تاثیر اتر آئی ہے
پیڑ بن جاتا ہوں خود پیڑ لگاتا ہوا میں
کتاب سیّد انجم رضا اور سیّد فرخ رضا کے اہتمام میں شائع ہوئی ہے۔ گٹ اَپ عمدہ اور غزال کی تعداد 75 ہے۔ نمونۂ کلام:
میں دن بنا رہا تھا مجھ سے رات بن گئی
یہ کیا عجیب میرے ساتھ بن گئی
میں جمع کر رہا تھا خواب‘ پھول اور چراغ
انہی سے میری پوری کائنات بن گئی
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
جلو میں کوچے مکان لے کر
سفر کے بے انت پانیوں کی تھکان لے کر
جو آنکھ کے عجز سے پرے ہیں
انہی زمانوں کا گیان لے کر
ترے علاقے کی سرحدوں کے نشان لے کر
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
زمین چپ‘ آسمان وسعت میں کھو گیا ہے
فضا ستاروں کی فصل سے لہلہا رہی ہے
مکاں مکینوں کی آہٹوں سے دھڑک رہے ہیں
جھکے جھکے نم زدہ دریچوں میں‘ آنکھ کوئی رکی ہوئی ہے
فصیل شہر مراد پر‘ نا مراد آہٹ اٹک گئی ہے
یہ خاک تیری مری صدا کے دیار میں
پھر بھٹک گئی ہے
دیارِ شام و سحر کے اندر
نگارِ دشت و شجر کے اندر
سواد ِجان و نظر کے اندر
خموشی ِبحر و بر کے اندر
ردائے صبح خبر کے اندر
اذیت روز و شب میں
ہونے کی ذلتوں میں نڈھال صبحوں کی
اوس میں بھیگتی ٹھٹھرتی خموشیوں کے بھنور کے اندر
دلوں سے باہر ‘دلوں کے اندر
ہوا ہر اک سمت بہہ رہی ہے
آج کا مقطع
آخر ظفرؔہوا ہوں منظر سے خود ہی غائب
اسلوب خاص اپنا میں عام کرتے کرتے