عمران لانگ مارچ منسوخی کے
بہانے ڈھونڈ رہے ہیں: شیری رحمن
وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''عمران لانگ مارچ منسوخی کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں‘‘ حالانکہ ان کے پاس اپنی حکومت کی برطرفی اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنی نااہلی کا بنا بنایا جواز پہلے ہی موجود ہے اور اگر وہ اسے بھی کافی نہ سمجھیں تو ہم انہیں کئی تیر بہدف بہانے مہیا کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں ہم سے زیادہ ان کا مددگار کون ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری تو ؎
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیاحی میں
اور بہانہ سازی بھی باقاعدہ ایک ہُنر کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ ہُنر سیکھنے ہی سے آتا ہے جبکہ آدمی ویسے بھی عمر بھر سیکھتا ہی رہتا ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
عوام کو ہر بار نئے نئے طریقوں
سے دھوکا دیا گیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام کو ہر بار نئے نئے طریقوں سے دھوکا دیا گیا‘‘ حالانکہ اس کام کے لئے ایک آدھ طریقہ ہی کافی اور تیر بہدف ہوتا ہے اس لیے سارے طریقے آزمانے کے بجائے ایک آدھ طریقہ بچا کر بھی رکھ لینا چاہئے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے لیکن ہمارے عوام بھی خاصی حد تک تنوع پسند واقع ہوئے ہیں اور انہیں بھی ورائٹی زیادہ مرغوب ہے؛ تاہم اس قدر لاڈ پیار سے عوام کی عادتوں کو بگاڑنا بھی کوئی اچھا کام نہیں ہے اور اصولی طور پر انہیں قناعت پسندی ہی کا درس دینا چاہئے جس سے خود ان کے لیے بیشتر آسانیوں کے دروازے کھلتے ہیں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان کا لانگ مارچ نہیں ہوگا: منظور وسان
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما منظور وسان نے پیش گوئی کی ہے کہ ''عمران خان کا لانگ مارچ نہیں ہوگا‘‘ اگرچہ آج کل زیادہ تر پیش گوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہے لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ یہ کام ترک کر دینا چاہئے، یہ پیش گوئیوں کا کام ہے کہ وہ ٹھیک نکلتی ہیں یا غلط، جبکہ ہمارا کام انہیں بیان کرنا ہے۔ وہ اپنا کام کریں، ہم اپنا کام کرتے ہیں جبکہ آج کل خوابوں میں بھی سڑکیں خالی خالی ہی نظر آتی ہیں؛ اگرچہ دورانِ خواب ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ خواب جھوٹا ہے یا سچا‘ مگر میرا کام خواب دیکھنا ہے اس کی تعبیر نکالنا نہیں، جو ایک الگ شعبہ ہے اور آدمی ایک ہی کام کر سکتا ہے، خواب دیکھے یااُس کی تعبیر نکالے اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ میں صرف تعبیریں ہی نکالا کروں۔ آپ اگلے روز کراچی سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔
عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں
اپنے بیان پر نادم ہوں: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں اپنے بیان پر نادم ہوں‘‘ ویسے تو اکثر بیانات ایسے ہوتے ہیں جن سے رجوع کیا جانا چاہئے لیکن یہ عہدہ ایسا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ وزیر خارجہ اگر اپنے ہر بیان سے رجوع کرنے لگے تو اس کا خارجہ تعلقات پر بُرا اثر پڑتا ہے جبکہ اس لیے بھی صحیح ردعمل ظاہر نہیں کیا جا سکا کہ تقریبات میں نعرے بازی تو ہوتی رہتی ہے‘ اینٹ سے اینٹ بجا دینے جیسے اعلانات بھی تاریخ کا حصہ ہیں نیز مخالفانہ نعرے تو سبھی سیاستدانوں اور سبھی پارٹیوں کے خلاف لگتے ہیں جن سے ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ آپ اگلے روز یو این ڈے پر اپنا پیغام جاری کر رہے تھے۔
بلاول وضو کر کے گیٹ نمبر چار کا نام لیا کریں: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''بلاول وضو کر کے گیٹ نمبر چار کا نام لیا کرے‘‘ جبکہ ہم تو ہر وقت اسی لیے باوضو رہتے ہیں کہ جانے کس وقت نام لینا پڑ جائے کیونکہ گفتگو کے دوران اتنا وقت نہیں ہوتا کہ نام لینا ہو اور اس سے پہلے آدمی وضو کرنے چلا جائے کیونکہ ہر جگہ پانی بھی فوری طور پر دستیاب نہیں ہوتا اس لیے ہم پانی کی بوتل احتیاطاً ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں؛ چنانچہ آدمی کو ادب آداب کا پورا پورا خیال رکھنا چاہئے جو کہ اس کی اپنی صحت و سلامتی کے لیے از حد ضروری ہے کیونکہ بے ادب لوگ‘ خاص طور پر ہمارے ملک میں‘ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں مسعود احمد کی غزل:
دائرہ توڑ کر کہاں جائیں
ہم تمہیں چھوڑ کر کہاں جائیں
سر یہ دیوار سے پھوڑ سکتے ہیں
سر ایسے چھوڑ کر کہاں جائیں
یہ جو دریا پڑا ہے رستے میں
ہم اسے چھوڑ کر کہاں جائیں
ٹکٹکی باندھ کر پڑے ہیں ابھی
ٹکٹکی توڑ کر کہاں جائیں
بے حسی مُورتی ہے پتھر کی
اسے جھنجھوڑ کر کہاں جائیں
کچھ کہو ہم تمہاری دنیا کو
ایک دم چھوڑ کر کہاں جائیں
ہم دلوں کے ہیں جوڑنے والے
سر سے سر جوڑ کر کہاں جائیں
آج کا مقطع
کیا زمانہ ہے کہ اس گنبد بے در میں ظفرؔ
اپنی آواز کو دیکھا ہے فنا ہوتے ہوئے