"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور ڈاکٹر ابرار احمد

مشکلات کے باوجود اپنا کھویا ہوا
مقام حاصل کریں گے: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مشکلات کے باوجود ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کریں گے‘‘ جو صحیح معنوں میں ایک یادگار مقام تھا اور آخر دم تک یاد رہے گا اور اب جو وسائل کی کمی کی وجہ سے ایک خواب ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ مانگے تانگے کے وسائل کوئی وسائل نہیں ہوتے جو محض قرض ہوتا ہے جو بعد میں ادا بھی کرنا ہوتا ہے جبکہ اقتدار میں آنے کا واحد مقصد وسائل پیدا کرنا ہی تھا تاکہ ان سے استفادہ کر کے کھویا ہوا مقام واپس لایا جا سکے جبکہ ہر کسی کو اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور جو اگر مل جائے تو حق بحقِ دار رسید اسی کو کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پولیس سروس کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عوام نکل پڑے تو رانا ثناء اللہ کو
بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''عوام نکل پڑے تو رانا ثناء اللہ کو بھاگنے کی جگہ نہیں ملے گی‘‘ کیونکہ رش بھی اتنا زیادہ ہوگا کہ اس میں سے بھاگنا ممکن ہی نہیں ہوگا حتیٰ کہ ہم خود بھی بھاگنا چاہیں تو نہیں بھاگ سکیں گے کیونکہ تھکے ہوئے اس قدر ہوں گے کہ بھاگنے کا دم خم ہی باقی نہیں رہا ہو گا چنانچہ ان کے لیے ضروری ہوگا کہ سب سے پہلے بھاگنے کی ریہرسل کر لیں۔ اگرچہ بھاگنے کی روایت ان کے ہاں پہلے سے ہی موجود ہے اور وہ اپنے لیڈروں کے نقش قدم پر ہی چل کر اس مسئلے کو حل کر سکتے ہیں۔ اگرچہ مارچ کی صفیں چیر کر بھاگنا کوئی معمولی بات نہیں ہے لیکن ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
عمران جس دروازے سے آئے
تھے وہ بند ہو چکا ہے: شیری رحمن
وفاقی وزیر سینیٹر شیری رحمن نے کہا ہے کہ ''عمران جس دروازے سے آئے تھے وہ بند ہو چکا ہے‘‘ اور یہ کچھ اچھا نہیں ہوا کہ نواز لیگ سمیت ہم سب بھی اسی دروازے سے آیا جایا کرتے ہیں جس کے لیے اب کوئی دروازہ دریافت کرنا پڑے گا کیونکہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اگرچہ اس کے باپ کا آج تک پتا نہیں چل سکا کہ وہ ذاتِ شریف کون ہیں۔ اگرچہ سب نے اپنے اپنے دروازے کا انتظام پہلے ہی سے کر رکھا ہوتا ہے لیکن اگر بند ہونے پر آئیں تو چور دروازے بھی بند ہو سکتے ہیں جس کا علاج سرنگ کھودنا ہی رہ جاتا ہے جو بجائے خود اتنا آسان کام نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
رانا ثناء فیصلہ کرلے کیسے بھاگنا ہے: فیاض چوہان
ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ''رانا ثناء فیصلہ کر لیں کہ کیسے بھاگنا ہے‘‘ کیونکہ اگر وہ فیصلہ کیے بغیر بھاگیں گے کہ کیسے بھاگنا ہے تو وہ کہیں بھی پہنچ نہ سکیں گے اس لیے وہ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ انہوں نے موٹرسائیکل‘ کار یا ہوائی جہاز کے ذریعے بھاگنا ہے اگرچہ انہیں اس لیے کسی ریہرسل وغیرہ کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ میاں نواز شریف اور اسحق ڈار کی جیتی جاگتی مثالیں ان کے سامنے ہیں اور جس طرح ہم نے نواز شریف کو بھاگنے کی اجازت دے دی تھی رانا ثناء کو بھی دے سکتے ہیں کیونکہ ہم کسی کی آمدورفت میں رکاوٹ ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں کہ یہ جمہوریت کا زمانہ ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عمران خان دن میں انقلاب کی باتیں
کرتا اور رات کو پائوں پکڑتا ہے: جاوید لطیف
وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''عمران خان دن میں انقلاب کی باتیں کرتا اور رات کو پائوں پکڑتا ہے‘‘ جبکہ انقلاب کی باتیں ہمارے تو مزاج ہی کے خلاف ہیں البتہ دیگر باتوں میں ہم نے کبھی دوغلی پالیسی اختیار نہیں کی کیونکہ ہم ایک ہی کام کرتے اور دن رات کرتے ہیں جبکہ ویسے بھی آدمی کو مستقل مزاج ہونا چاہیے کہ وہ دونوں میں سے ایک کام کرے اور اس پر ڈٹ جائے‘ نیز آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جو اسے آتا ہو اور اس کے نظریات کے مطابق بھی ہو جبکہ پائوں پکڑنے میں کوئی خاص محنت بھی درکار نہیں ہوتی اور اس کے مثبت نتائج بھی فوری طور پر برآمد ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم ؎
ہمیں معلوم ہے
یہ شام بکھر جائے گی
اور یہ رنگ کسی گوشہ بے نام میں کھو جائیں گے
یہ زمیں دیکھتی رہ جائے گی قدموں کے نشاں
اور یہ قافلہ...ہستی کی گزرگاہوں سے
کسی انجان جزیرے کو نکل جائے گا
جس جگہ آج تماشا ئے طلب سے ہے جوان
محفل رنگ و مستی
کل یہاں ، ماتم یک شہر نگاراں ہو گا
آج جن رستوں پہ موہوم تمنا کے درختوں کے تلے
ہم رکا کرتے ہیں‘ہنستے ہیں‘گزر جاتے ہیں
ان پہ ٹوٹے ہوے پتوں میں ہوا ٹھہرے گی
آج جس موڑ پہ ہم تم سے ملا کرتے ہیں
اس پہ کیا جانیے کل کون رکے گا آ کر ...
آج اس شور میں شامل ہے
جن آوازوں کی دل دوز مہک
کل یہ مہکار اتر جائے گی خوابوں میں کہیں
گھومتے گھومتے تھک جائیں گے
ہم... فراموش زمانے کے ستاروں کی طرح
ارض موجود کی سرحد پہ بکھر جائیں گے
اور کچھ دیر‘ ہماری آواز تم سنو گے تو ٹھہر جاؤ گے
دو گھڑی رک کے گزر جاؤ گے‘ چلتے چلتے
اور سہمے ہوئے چوباروں میں
انہی رستوں ‘ انہی بازاروں میں
ہنسنے والوں کے نئے قافلے آ جائیں گے !
آج کا مطلع
آگ کا رشتہ نکل آئے کوئی پانی کے ساتھ
زندہ رہ سکتا ہوں ایسی ہی خوش امکانی کے ساتھ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں