شہباز عمران کا کوئی مطالبہ سنیں
نہ فیس سیونگ دیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ہے کہ ''وہ عمران کا کوئی مطالبہ سنیں نہ ہی انہیں فیس سیونگ دیں‘‘ کیونکہ ہمیں بھی کوئی فیس سیونگ نہیں دی گئی تھی اور لندن آنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑے تھے جس میں پاپڑ فروشوں کا کوئی کردار نہیں تھا کیونکہ وہ نئے نئے امیر ہوئے تھے اور کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھے، نیز اگر برازیل میں نااہل ہونے والا 'لولاڈی سلوا‘ تیسری بار وزیراعظم بن سکتا ہے تو کوئی اور کیوں نہیں؟ اور جس سے میرے اس بیانیے کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں کرپشن کو ہرگز بُرا نہیں سمجھا جاتا۔ آپ اگلے روز لندن سے میاں شہباز شریف کے نام ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
لانگ مارچ کیلئے اسلام آباد آنے والے گرم
کپڑوں کا انتظام کر کے آئیں: فواد چودھری
سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ کے لیے اسلام آباد آنے والے دوست گرم کپڑوں کا انتظام کر کے آئیں‘‘ بلکہ کچھ زحمت ہمارے لیے بھی اُٹھائیں کیونکہ ہم بھی یہ سارا کچھ اُنہی کے لیے کر رہے ہیں، نیز فسٹ ایڈ باکس بھی اپنے ساتھ لے کر آئیں کیونکہ حکومت نے دیگر انتظامات کے ساتھ ربڑ کی گولیوں کے ساتھ تواضع کا بھی بندوبست کر رکھا ہے بلکہ اگر ہو سکے تو اپنا اپنا ڈاکٹر بھی اپنے ساتھ لائیں جس سے شرکا کی رونق بھی دوبالا ہو جائے گی اور عوام کے سمندر میں کچھ پانی مزید جمع ہو جائے گا، نیز گرم کپڑوں میں کمبل اور رضائی کو بھی شامل سمجھیں۔ آپ اگلے روز اپنے ٹویٹ کے ذریعے شرکا کے نام ایک پیغام جاری کر رہے تھے۔
مارچ پر اربوں روپے کی فنڈنگ
کہاں سے ہو رہی ہے: جاوید لطیف
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے رہنما جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''مارچ پر اربوں روپے کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے‘‘ حالانکہ ملک سے پیسوں کا صفایا اسی لیے کیا گیا تھا کہ اسے کسی غلط مقصد کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام تر کوششوں کے بعد بھی کچھ ارب روپے ملک میں باقی رہ گئے تھے جن کو اب دھرنوں اور لانگ مارچ میں استعمال کیا جا رہا ہے اور جس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیسوں کا صفایا مکمل طور پر ہی ہونا چاہئے تاکہ اس کے غلط اور ناجائز استعمال کو روکا جا سکے اور اگر زیادہ محنت اور خلوص سے کوشش کی جاتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا؛ تاہم اس سے ایک سبق ضرور حاصل ہو گیا ہے کہ صحیح کام کو کس طرح کرنا چاہئے۔ آپ اگلے روز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اداروں سے ٹکرانا نہیں چاہتے
رینجرز پر سوالیہ نشان ہے: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اداروں سے ٹکرانا نہیں چاہتے‘ رینجرز کی تعیناتی پر سوالیہ نشان ہے‘‘ اگرچہ ہمارے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے وفاقی پولیس ہی کافی تھی جس کی معاونت کے لیے سندھ سے بھی پولیس بلا لی گئی ہے؛ تاہم پولیس سمیت کسی بھی ادارے کے ساتھ ٹکرانا ہم پسند نہیں کریں گے کیونکہ ہم اگر ٹکرائیں گے تو براہ راست وفاقی حکومت سے ٹکرائیں گے کہ وفاقی پولیس سے ٹکرانا ویسے بھی ہماری شان ہی کے خلاف ہے، جبکہ اس کا ہمارے ساتھ ٹکرانا اس کی شان کے خلاف ہے کیونکہ ہمیشہ برابر کے فریق ہی سے ٹکرانا چاہئے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی پہنچنے پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
حکومت لانگ مارچ کی
مخالفت نہیں کر رہی: سالک حسین
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ق) کے رہنما چودھری سالک حسین نے کہا ہے کہ ''حکومت لانگ مارچ کی مخالفت نہیں کر رہی‘‘ اور اسے صرف روکنے کی کوشش کرے گی کیونکہ مخالفت اور چیز ہے اور روکنا سراسر ایک اور چیز، اور اس روکنے کا واحد مقصد بھی ربڑ کی ان گولیوں اور دیگر آلات کا امتحان لینا ہے جو وفاقی وزیر داخلہ نے جمع کر رکھے ہیں کہ وہ کچھ کام بھی کرتے ہیں یا محض سرمائے کا ضیاع ہیں اور حکومت چونکہ شروع سے ہی سرمائے کا خاص خیال رکھتی ہے اور اسے ادھر اُدھر نہیں ہونے دیتی اس لیے اس کا کوئی ضیاع وہ کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتی اور اس کی بہترین مثال اندرون و بیرونِ ملک اثاثوں کی صورت میں موجود ہے کہ ایک ایک پائی کو کس طرح محفوظ بنایا گیا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور، اب اوکاڑہ سے مسعود احمد کی غزل:
اقرار کر رہے ہو تو انکار کس لیے
ایسے ہی رات دن کی یہ تکرار کس لیے
اچھا نہیں لگا یہ ہنر توڑ پھوڑ کا
دروازہ توڑنا تھا تو دیوار کس لیے
آنا تھا گر یہیں پہ ہمیں موڑ کاٹ کر
گزرے ہیں تیرے گھر سے کئی بار کس لیے
اِک دوسرے سے پیچھا چھڑانے کی دوڑ میں
اِک دوسرے کا پیچھا لگاتار کس لیے
اعلان ہو رہا ہے وہاں میری جیت کا
تسلیم کر کے بیٹھا ہوں یہ ہار کس لیے
دُنیا میں کوئی چیز نکمی نہیں اگر
سمجھا گیا ہے پھرہمیں بے کار کس لیے
حل ہو رہا تھا دھیمے سروں میں بھی
پھر گفتگو یہ اتنی دھواں دھار کس لیے
مسعودؔ ساری بات ہے دو گز زمین کی
وہ ایکڑوں زمین تھی درکار کس لیے
آج کا مقطع
یہ حرف و صوت کرشمے ہیں سب اسی کے ظفرؔ
لہو کے ساتھ رگوں میں جو ڈر رکا ہوا ہے