"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اورڈاکٹر ابرار احمد

سوچے سمجھے بغیر لوگوں پر الزام
لگانا بُری بات ہے: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور(ن) لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''سوچے سمجھے بغیر لوگوں پر الزام لگانا بُری بات ہے‘‘ کیونکہ یہی الزام سوچ سمجھ کر بھی لگایا جا سکتا تھا جبکہ زیادہ جاندار الزام بھی وہی ہوتا ہے جو سوچ سمجھ کر لگایا جائے‘ سوچ سمجھ کر الزام لگانے کا ایک فائدہ یہی ہے کہ آدمی فیصلہ کر سکتا ہے کہ الزام کس کس پر لگانا ہے اور کس کس کو بچانا ہے اور یہی طریق کار زیادہ مستحسن بھی ہے جبکہ باقی سارے کام سوچے سمجھے بغیر بھی کیے جا سکتے ہیں کیونکہ سیاست میں سوچنا سمجھنا ویسے بھی غیر ضروری ہوتا ہے حتیٰ کہ الزام لگانا بھی ایک روٹین کی بات ہو کر رہ گیا ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
نواز شریف سے کہا ہے ابھی
پاکستان نہ آئیں: چودھری شجاعت
(ق) لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''میں نے نواز شریف سے کہا ہے ابھی پاکستان نہ آئیں‘‘ اگرچہ ان کے آنے کا خود بھی کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم وہ یہ غلطی کر بھی سکتے ہیں جبکہ یہاں پنجاب حکومت کے ان کے بارے میں ارادے کچھ زیادہ اچھے نہیں ہیں اور تمام ہوائی اڈوں پر اس نے اپنی پولیس کو الرٹ کر رکھا ہے۔ اگرچہ وہ کچھ ایسے کامیاب نہیں ہیں تاہم کوئی حملہ خدانخواستہ کامیاب بھی ہو سکتا ہے‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھا ئے دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
پی ٹی آئی حملے کو سیاسی رنگ نہ دے: طاہر خلیل سندھو
(ن) لیگی رہنما طاہر خلیل سندھو نے کہا ہے کہ ''پی ٹی آئی حملے کو سیاسی رنگ نہ دے‘‘ کیونکہ حملہ آور کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اگرچہ بعد میں وہ کسی سیاسی جماعت میں شامل بھی ہو سکتا ہے‘ تاہم فی الحال اس کا تعلق سیاست یا کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے جبکہ ہم نے پوری چھان بین کر لی ہے اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کم از کم ہماری جماعت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ ہماری جماعت پرامن طریقے سے جملہ نتائج حاصل کرنے میں یقین رکھتی ہے کہ یہ ایک صلح کُل جماعت ہے اور اس نے اب تک صلح صفائی ہی سے سارے نتائج حاصل کیے ہیں جن میں ہاتھ کی صفائی بھی شامل ہے۔ آپ اگلے روز دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایک گفتگو میں شریک تھے۔
ملزم کا بیان ڈرامہ، معاملے کی
تہہ تک پہنچیں گے: پرویز الٰہی
وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کہا ہے کہ ''ملزم کا بیان ڈرامہ، معاملے کی تہہ تک پہنچیں گے‘‘ کہ شریک بلکہ اصل ملزمان کون ہیں جس کے لیے پولیس اپنے روایتی طور طریقوں سے سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے جس کے نتیجے میں قوی امکان ہے کہ ملزم سچ اُگل دے گا‘ اسی لیے ابھی تک مقدمہ بھی درج نہیں کروایا جا سکا کہ اصل ملزمان کی شمولیت کے بغیر ایف آئی آر کیسے کاٹی جا سکتی ہے جبکہ تھریٹ کے باوجود احتیاطی تدابیر بھی اس لیے اختیار نہیں کی گئیں تھیں کہ وقوعہ کے بغیر اصل ملزمان کا سراغ کیسے لگایا جا سکتا تھا جو کہ کافی حیران کن ثابت ہوں گے‘ اس لیے یہ تفتیش طول بھی کھینچ سکتی ہے جبکہ دیر آید دوست آید بھی اسی کو کہتے ہیں۔ آپ اگلے روز صوبائی کابینہ کے تیسرے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
عمران پر فائرنگ کرنے
والا جنونی ہے: پرویز رشید
(ن) لیگ کے سینئر رہنما پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''عمران پر فائرنگ کرنے والا جنونی ہے‘‘ اس لیے اسے سیدھا پاگل خانے میں داخل کروانا چاہیے جہاں اس کا مناسب علاج ہو سکے ورنہ وہ اپنے جنون کے تحت ایسی کوئی اور واردات بھی کر سکتا ہے اس لیے اگر ہمیں ایسی مزید وارداتوں سے بچنا ہے تو اس کا مکمل علاج کروانا چاہیے کیونکہ ایک پاگل شخص تو ویسے بھی قابلِ رحم ہوتا ہے اور اسے کچھ پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اس لیے اس پر ترس کھانے کی ضرورت ہے اور انسانی ہمدردی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ایک بیمار شخص پر رحم کھایا جائے‘ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
اور، اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
رات آتی ہے دریچوں میں ،گزر گاہوں میں
شہر پر شور کے دروازوں میں
اور آنکھوں کے نہاں خانوں میں
جیسے خوابوں کا دھواں اڑتا ہے
رات آتی ہے تو نیندوں میں کہیں
دیکھے ، اَن دیکھے دیے جلتے ہیں
کسی مدفون زمانے کے کناروں سے ابھر آتی ہے
چہرۂ خاک پہ جھک آتی ہے ، سایہ بن کر
خوابِ موجود کی تعبیر ِگزشتہ بن کر
رات آتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں
کتنے دِن بیت گئے ، کتنی رتیں ہیں باقی
اس سے ملنے کی ،بچھڑ جانے کی
دل میں اب کیسے نشاں جلتے ہیں
آنکھ میں کتنے مناظر ہیں
ابھی تک زندہ
کیا کسی یاد کی مٹی ابھی اڑتی ہے کہیں سانسوں میں ؟
کیسے امکان ہیں ، کیسے دکھ ہیں عمر دو روزہ میں
کیا کچھ نہیں کر پائے ہیں ہم
گریہ کرتی ہوئی آوازوں کا مسکن ہے یہ رات !
نیند اڑتی ہے تو ہم کہتے ہیں اے سیاہ پوش بتا !
ختم ہو پائے گا کب تنگی کون و مکاں میں یہ بھٹکنے کا سفر
رات ہنستی ہے ، رلاتی ہے ہمیں
ہم یہ کہتے ہیں کہ اے رات ، ستاروں بھری رات !
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جلیں گے کب تک
کب تلک ہم کو میسّر ہے ابھی
ہم کلامی کی یہ فرصت، یہ خموشی، یہ سکوں
کب تلک خواب جنوں ؟
دل میں موہوم ابد کی یہ صدائیں کب تک
کف افسوس ملیں گے کب تک ؟
رات بڑھتی ہے ،لبھاتی ہے ہمیں
اور کوئی لوری سناتی ہے ہمیں
اور ہم میلے تکیوں میں ، لحافوں میں دبک جاتے ہیں
بھیگی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہیں
دیکھتے دیکھتے سو جاتے ہیں
آج کا مطلع
بجلی گری ہے کل کسی اجڑے مکان پر
رونے لگوں کہ ہنس پڑوں اس داستان پر

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں