"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اور افضال نوید

اختلافِ رائے کو نفرت کی بنیاد نہیں
بننے دینا چاہئے: احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اورمسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''اختلافِ رائے کو نفرت کی بنیاد نہیں بننے دینا چاہئے‘‘ اور ایسے بیانات سے پرہیز کرنا چاہئے جن سے نفرت پھیلتی ہو؛ اگرچہ سیاسی بیانات سے کوئی خاص محبت نہیں پھیلتی بلکہ یہ سونے پر سہاگا ہی ثابت ہوتے ہیں کیونکہ نفرت انگیز بیانات کا جواب بھی دینا ہوتا ہے جو اگر نہ دیا جائے توپارٹی پالیسی کی خلاف ورزی ہو جاتی ہے اور کم ہمتی کے طعنے کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے لہٰذا اینٹ کا جواب پتھر ہی سے دیا جاتا ہے جس سے ماحول میں ایک توازن برقرار رہتا ہے جو سیاست کی جان بھی ہے۔ آپ اگلے روز پاکستانی قونصل خانہ جدہ میں خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت نوٹوں، لوٹوں اور بوٹوں کی
بنیاد پر کھڑی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''جمہوریت نوٹوں، لوٹوں اور بوٹوں کی بنیاد پر کھڑی ہے‘‘ اگرچہ اس سے قافیے کی خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ نوٹوں اور لوٹوں کے ساتھ بُوٹوں کا قافیہ میل نہیں کھاتا اور جملے کا حسن بھی مجروح ہوتا ہے؛ تاہم اسے ہم قافیہ بنانے کے لیے بُوٹوں کے بجائے بَوٹوں بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اس کا مطلب چڑیا یا کسی اور پرندے کا بچہ ہوگا؛ نیز دوسری صورت میں اگر اس مقصد کی خاطر نُوٹوں اور لُوٹوں کہا جائے تو بھی بات نہیں بنتی جس سے صرف لُوٹوں یعنی لوٹ مار ہی کی سمجھ آتی ہے، نُوٹوں پھر بھی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وکلاء سے خطاب کر رہے تھے۔
وہ قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے جو
ہم نہیں اٹھانا چاہتے: بلاول بھٹو
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وہ قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے جو ہم نہیں اٹھانا چاہتے‘‘ کیونکہ ہم تو صرف ایک ہی قدم اٹھانا چاہتے ہیں جس کے بعد کسی اور قدم کے اٹھانے کی کوئی ضرورت رہتی ہے نہ گنجائش کیونکہ ہمارا مذکورہ قدم ہی سارے مسائل حل کر دیتا ہے؛ چنانچہ اسے ہم اٹھائے ہی رکھتے ہیں تاکہ یہ آؤٹ آف پریکٹس نہ ہو جائے؛ اگرچہ اس کی نوعیت تبدیل ہوتی رہتی ہے مثلاً ابھی ہم یہ قدم صرف صوبائی سطح تک ہی اٹھانے پر مجبور ہیں جو ہماری ضروریات کے لیے بہت ناکافی ہے؛ تاہم کافی حد تک دال دلیا ہو جاتا ہے گندم اگر بہم نہ رسد بھس غنیمت است۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اونٹ بہت جلد کسی کروٹ بیٹھنے والا ہے: اعجاز الحق
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ضیاء) کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا ہے کہ ''اونٹ بہت جلد کسی کروٹ بیٹھنے والا ہے‘‘ اگرچہ اس میں دقت بھی پیش آ سکتی ہے کیونکہ اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہوتی ماسوائے اس وقت کے جب وہ پانی پی رہا ہوتا ہے؛ تاہم پانی بھی وہ کبھی کبھار ہی پیتا ہے کیونکہ وہ آٹھ دس روز کے لیے ایک ساتھ کھانا کھا سکتا ہے اور پانی بھی پی سکتا ہے‘ اس لیے اس کی گردن بھی کبھی کبھار ہی سیدھی ہوتی ہے اور اس کی دوسری ساری کلیں ٹیڑھی ہی رہتی ہیں، اس کے علاوہ وہ بے مہار بھی ہوتا ہے اور کینہ پرور بھی؛ البتہ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو اتنا ہی بڑا ہوتا ہے جتنا کہ ایک بڑا اونٹ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے ایک پروگرام میں اظہار خیال کر رہے تھے۔
اکثر فنکار اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں: حمائمہ ملک
نامور اداکارہ حمائمہ ملک نے کہا ہے کہ ''اکثر فنکار اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں‘‘ اور اس حقیقت کا دیکھنے ہی سے پتا چلتا ہے اور اس سے ان کی اصلیت ظاہر ہو جاتی ہے جبکہ وہ بظاہر کافی ٹھوس نظر آتے ہیں جو کہ بناوٹ اور جعلسازی ہی کی صورتیں ہیں؛ اس لیے میری رائے میں انہیں دو رنگی چھوڑ کر ایک رنگ ہو جانا چاہئے تاکہ دوسرے دھوکے میں نہ آ جائیں، بصورتِ دیگر انہیں ایک چِٹ اپنے جسم سے چپکا کر رکھنی چاہئے کہ ہم اندر سے کھوکھلے ہیں اور ہمارے بارے کوئی غلط فہمی یا خوش فہمی میں مبتلا نہ ہو جس سے بہت سوں کا بھلا ہو سکتا ہے، جبکہ ان کے اندر سے خود ہی کھڑ کھڑ کی آوازیں بھی آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ آپ اگلے روز ایک خصوصی انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
رواں تھی صرصر پارینہ پار میں تم تھے
اُٹھی جو آنکھ مرے ریگ زار میں تم تھے
دلوں پہ تنگ ہوا جا رہا تھا دروازہ
اُداسیوں سے اُدھر کی پکار میں تم تھے
پچھاڑ کھا کے ہوا تھم گئی تھی سانسوں میں
تھی ایڑ وقت کی گرد و غبار میں تم تھے
نہ جانے کون سی مڈبھیڑ پاؤں میںتھی پڑی
میں رہگزار میں تھا رہگزار میں تم تھے
دھنک میں موج شرابور تھی سمندر کی
ڈبو کے خود کو جو نکلے تو دھار میں تم تھے
صدا گزرتے ہوئے دور جا گری اُس دن
نہ جانے نیند کے کس خار زار میں تم تھے
جو رشتہ خاک سے ٹوٹا تو ٹوٹ ہی گئے ہم
یہ اور بات کہ ہر برگ و بار میں تم تھے
کسی جگہ سے بھی منہ موڑنا نہ تھا ممکن
خزاں میں تم تھے ہوائے بہار میں تم تھے
نجوم و ماہ جو زیر و زبر نویدؔ ہوئے
کہاں کے نشۂ لیل و نہار میں تم تھے
آج کا مقطع
تم سے تو ہے ظفرؔ کا بس اتنا مطالبہ
خود سے اسے زیادہ جدا مت کیا کرو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں