عمران خان کو ہاتھ نہ لگانا سوالیہ
نشان ہے: شرجیل میمن
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو ہاتھ نہ لگانا سوالیہ نشان ہے‘‘ حالانکہ ہاتھ لگانے میں کچھ زیادہ طاقت خرچ کرنا نہیں پڑتی اور کسی کو ہاتھ لگانے پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا کیونکہ ہاتھ لگائے بغیر کسی کا ٹمپریچر تک معلوم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کسی کی نبض دیکھی جا سکتی ہے جبکہ کوئی کسی کو ہاتھ لگانے سے منع بھی نہیں کر سکتا؛ البتہ ہاتھ کرنا یا ہاتھ دکھانا ذرا مختلف چیزیں ہیں، نیز ہاتھ صفائی دکھانے کے لیے بھی ہوتا ہے یا کسی کو ہاتھوں ہاتھ لینے کے لیے جبکہ بایاں ہاتھ لگانا تو آسان ہے کیونکہ مشکل سے مشکل کام بھی بائیں ہاتھ سے کیا جا سکتا ہے اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ کی خبر تک نہیں ہوتی۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
قوم کو لڑاؤ اور تقسیم کرو کا کھیل
اب نہیں چلے گا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''قوم کو لڑاؤ اور تقسیم کرو کا کھیل اب نہیں چلے گا‘‘ کیونکہ اب تک یہ کافی کامیابی کے ساتھ چل چکا ہے اور مزید کی گنجائش نہیں ہے‘ اس لیے اب کسی اور کھیل کی طرف توجہ دینی چاہئے‘ خاص طور پر ہاکی کی طرف جو ہمارا قومی کھیل بھی ہے اور جس کی حالت بے حد دگرگوں ہے اور جسے دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے کی ضرورت ہے، نیز کُشتی پر بھی توجہ مبذول کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اکھاڑے ویران پڑے ہیں اور گوجرانوالہ‘ جو کبھی پہلوانوں کا شہر ہوا کرتا تھا‘ اب وہاں کے لوگوں کا سارا زور چڑے کھانے پر ہے جس سے چڑوں کی تعداد ختم ہوتی جا رہی ہے اور رستم زماں گاما پہلوان پیدا کرنے والے ملک میں پہلوانی نام کو بھی نہیں رہی۔ آپ اگلے روز منصورہ میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
اہم تقرری‘عمران خان تماشا
لگانے میں ناکام ہو چکے: رانا ثنا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''اہم تقرری پر عمران خان تماشا لگانے میں ناکام ہو چکے‘‘ جبکہ ہمارے قائد اس موضوع پر تمام ہدایات جاری کر کے جملہ خاندان کے ہمراہ یورپی ممالک کے سیر سپاٹے کے لیے روانہ بھی ہو چکے ہیں جس کی ان کے ڈاکٹرز نے نہ صرف اجازت دے دی ہے بلکہ ہدایت بھی دی ہے کہ بہتر ہے کہ اپنے علاج کو اب امریکہ جا کر جاری رکھیں، نیز وہاں پر بعض ایسے افراد سے بھی دورر ہنے کا موقع ملے گا جن کی وجہ سے برطانیہ میں قیام اب مشکل ہو گیا تھا جبکہ حسب روایت نئے محاذ کھولنے کی حکمت عملی پر غور و خوض کرنے کا بھی موقع میسر آئے گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کندھوں پر چڑھ کر اقتدار
میں آنے کے خواب نہ دیکھیں: حسن مرتضیٰ
پاکستان پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضیٰ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کندھوں پر چڑھ کر اقتدار میں آنے کے خواب نہ دیکھیں‘‘ کیونکہ کسی کے کندھے اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ ان پر چڑھا جا سکے، نیز کندھے چڑھنے کے لیے ہوتے ہی نہیں بلکہ یہ کندھا دینے کے لیے ہوتے ہیں، نیز کندھے خاص خاص موقعوں پر اچکائے جاتے ہیں جبکہ کندھوں پر سوار ہو کر ان پر سے گرنے کا خطرہ بھی ہر وقت موجود ہوتا ہے، نیز کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر صرف چلا جاتا ہے جسے شانہ بشانہ کہتے ہیں جبکہ کسی کو چاروں شانے چِت کرنا ایک بالکل مختلف سی چیز ہے جس کے لیے خصوصی طاقت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جبکہ کندھوں پر تو آسانی سے چڑھا بھی نہیں جا سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
دل کرتا ہے پاکستان جا کر
کھانا کھاؤں: بھارتی سنگھ
بالی وڈ کی معروف کامیڈین بھارتی سنگھ نے کہا ہے کہ ''دل چاہتا ہے پاکستان جا کر کھانا کھاؤں‘‘ کیونکہ وہاں کھانے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور بعض حضرات نے کھا کھا کر ملک کو تقریباً خالی کر دیا ہے حتیٰ کہ معیشت ڈیفالٹ ہو جانے کے قریب ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ وہاں کھانے پر کوئی پوچھ پرتیت بھی نہیں ہے تو اگر کوئی پکڑا بھی جائے تو نہ صرف یہ کہ ضمانت فوری طور پر ہو جاتی ہے جبکہ مقدمات کا سامنا کرنا ایک الگ عیاشی ہے اور کئی کئی سال تک فردِ جرم ہی عائد نہیں ہوتی، اور جو لوگ عدالتوں سے نہ بچ سکیں انہیں وہاں قانون میں ترمیم کر کے صاف بچا لیا جاتا ہے اس لیے وہاں جا کر کون کھانا نہیں کھانا چاہے گا۔ آپ اگلے روز وڈیو لنک پر پاکستانی اداکار ہمایوں سعید سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں ملتان سے رفعت ناہید کی غزل:
جو تھا کبھی‘ نہیں بھی تھا تو اب ذرا نہیں رہا
تمہارے میرے درمیان رابطہ نہیں رہا
جو موڑ تم نے مُڑ لیے وہ کیا سلجھ سکیں گے اب
ہزار پیچ پڑ گئے ہیں‘ راستا نہیں رہا
میں تمہاری بات کے اُدھیڑ بُن میں رہ گئی
تمہی بتاؤ کیا رہا ہے اور کیا نہیں رہا
تمہارے ہاتھ کیا لگی یہ سات رنگ داستاں
کہیں سے سُرخ اُڑ گیا‘ کہیں ہرا نہیں رہا
ہزار کوس دور سے بُلا رہے ہو فون پر
بلا رہے ہو جیسے کوئی فاصلہ نہیں رہا
ہمارے دل میں روشنی ہے آ سکو تو آؤ تم
ہوا چلی ہے‘ بام پر کوئی دِیا نہیں رہا
آج کا مقطع
جس کی کبھی جھلک بھی نہ دیکھی ہو عمر بھر
تو ہی بتا ظفرؔ اسے کیسا بتائیے