پاکستان کا مقدمہ موسمیاتی انصاف
ہے‘ خیرات نہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''پاکستان کا مقدمہ موسمیاتی انصاف ہے‘ خیرات نہیں‘‘ کیونکہ خیرات اب کوئی دیتا بھی نہیں ہے حالانکہ حکومت نے بڑے جوش و خروش سے ''بیگرز کانٹ بی چُوزرز‘‘ کانعرہ لگایا تھا مگر اب تو کوئی قرض بھی نہیں دیتا کہ وصولی کس سے کریں گے جبکہ آئی ایم ایف نے بھی بے آسرا چھوڑ دیا ہے اور جس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ محض افراد کا ہی مالا مال ہونا کافی نہیں، ملک کے پلّے بھی کچھ ہونا چاہئے یعنی کچھ ملک کے لیے بھی چھوڑ دینا چاہئے لیکن بقول شاعر ع
اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت
آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اب فیصلے کا وقت ہے‘ غلطی
کی گنجائش نہیں: شیخ رشید
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''اب فیصلے کا وقت ہے‘ غلطی کی گنجائش نہیں‘‘ کیونکہ جتنی غلطیاں کر چکے ہیں وہ بھی ضرورت اور گنجائش سے کہیں زیادہ تھیں اور کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی تھی جو اب پوری کی جا سکے؛ اگرچہ غلطیاں کرنے کو جی بہت چاہتا ہے کیونکہ عادت پڑ چکی تھی اور عادتیں ہمیشہ ساتھ رہتی ہیں اس لیے یہ کسی نہ کسی شکل میں ساتھ ہی رہیں گی؛ تاہم غلطی ایک ایسی چیز ہے جس کی گنجائش نکالنا نہیں پڑتی بلکہ خودبخود نکل آتی ہے اور اس پر یوٹرن بھی نہیں لیا جا سکتا اور نہ ہی اس طرح اس کی تلافی ہو سکتی ہے‘ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ مزید غلطیاں کرنے کا سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ٹویٹ کر رہے تھے۔
عمران خان کی پارٹی ٹوٹ چکی‘ ان کے 20 ارکان ہمارے پاس ہیں: ایاز صادق
وفاقی وزیر‘ سابق سپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی پارٹی ٹوٹ چکی‘ ان کے بیس ارکان ہمارے پاس ہیں‘‘ کیونکہ جب سے ان کے ضمیر جاگے ہیں وہ ہمارے پاس سے ہلنے کا نام تک نہیں لیتے جبکہ ان کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر جگانے کا کارنامہ اتحادیوں نے سرانجام دیا ہے اور یہ دوسرام کام ہے جس میں وہ یدطولیٰ رکھتے ہیں جبکہ پہلے کام کی بابت بتانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے ایک دنیا واقف اور اچھی طرح سے واقف ہے جس سے اگرچہ فرصت تو نہیں ملتی؛ تاہم دیگر کاموں کے لیے وقت نکل ہی آتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل شو میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
عمران خان مافیا کے خلاف جنگ کر
رہے ہیں‘ کامیاب ہوں گے: عمر سرفراز
مشیر داخلہ و اطلاعات پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان مافیا کے خلاف جنگ کر رہے ہیں‘ کامیاب ہوں گے‘‘ نیز جس مافیا کے گھیرے میں وہ خود آئے ہوئے ہیں اور جس نے انہیں اس حالت کو پہنچایا ہے وہ اس کے خلاف بھی جنگ ضرور کریں گے مگر کچھ دیر سے کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی کام کیا جا سکتا ہے اس لیے وہ مخالف مافیا سے نمٹتے ہی اپنے اردگرد موجود مافیا کے خلاف اعلا نِ جنگ کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور اگر وہ دیرلگائیں بھی تو زیادہ تر صحیح کاموں میں دیر لگاتے ہیں اور شروع سے ہی وہ ''دیر آید درست آید‘‘ کے قائل چلے آ رہے ہیں جبکہ جلد بازی ویسے بھی شیطان کا کام ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز سپیشل بچوں کے لیے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ہم زیادہ کرپٹ اور نااہل ہیں اس لیے 75 سال سے آگے نہیں بڑھ سکے: احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''ہم زیادہ کرپٹ اور نااہل ہیں اس لیے 75سال سے آگے نہیں بڑھ سکے‘‘ اگرچہ یہ بات ساری دنیا کو اچھی طرح سے معلوم ہے؛ تاہم اعتراف بجائے خود ایک دلیرانہ بات ہے اور اتفاق سے میں کافی دلیر واقع ہوا ہے؛ اگرچہ ملک کی معاشی حالت کو دیکھ کر کسی اعتراف کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی؛ تاہم اپنے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے اعتراف بھی بے حد ضروری ہوتا ہے اور اس سے جی کافی ہلکا ہو جاتا ہے، اور مقدمات کے ختم ہوجانے سے یہ بوجھ پہلے ہی کافی ہلکا ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں منعقدہ ایک کانفرنس کے شرکا سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
لہو میں رات بھی ہے، روشنی کی آس بھی ہے
کہ دل نہیں میرے سینے میں اور اُداس بھی ہے
میں اُس کے سانس کی گرمی پہ جی رہا ہوں ابھی
جو مجھ سے دور بھی ہے‘ میرے آس پاس بھی ہے
میں اپنے آپ سے خالی ہی پھر رہا ہوں‘ مگر
جو ہے بھی یا نہیں‘ اُس جان کو ہراس بھی ہے
مغالطہ سا جو اک ہے کسی کے بارے میں
یہی مرے دلِ ناکام کی اساس بھی ہے
یہ میرا دل ہے جو ہے یوں تو ٹھیک ٹھاک‘ مگر
اور اس کے ساتھ ہی تھوڑا سا بدحواس بھی ہے
مجھے کسی سے ملاقات کی بھی ہے حسرت
مگر کسی کی جدائی ہی مجھ کو راس بھی ہے
لگی ہے بھوک جہاں اُس کو بھول جانے کی
وہیں کہیں پہ اُسے دیکھنے کی پیاس بھی ہے
میں جس کے زور پہ زندہ ہوں اِک زمانے سے
بلند پیڑ تو تھے ہی‘ یہ سبز گھاس بھی ہے
ظفرؔ کو یوں نظر انداز کیجیے بیشک
وہ آدمی تو ہے اک عام سا ہی‘ خاص بھی ہے
آج کا مطلع
کیسی رکی ہوئی تھی روانی مری طرف
ٹھہرا ہوا تھا اپنا ہی پانی مری طرف