مونس الٰہی اشاروں پر
فیصلے کرتے ہیں: فضل الرحمن
جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''مونس الٰہی اشاروں پر فیصلے کرتے ہیں‘‘ لیکن ہم ایسا ہرگز نہیں کرتے کیونکہ اگر براہِ راست حکم دیا جا سکتا ہو اور اس پر من و عن عمل بھی ہو جاتا ہو تو اشاروں کی کوئی ضرورت ویسے بھی باقی نہیں رہ جاتی جبکہ اشارہ بازی ویسے بھی اچھا کام نہیں ہے اور ہم اسے نہایت معیوب سمجھتے ہیں‘ نیز جس طرح ملکِ عزیز میں سیاست کی جاتی ہے‘ ہم اسے بھی مناسب خیال نہیں کرتے لیکن چونکہ سکہ رائج الوقت یہی ہے‘ اس لیے ہم بھی اسے اپنانے پر مجبور ہیں۔ آپ اگلے روز ایس ایم منیر مرحوم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
پنجاب اور کے پی میں حکومت کے خواب دیکھنے
والوں کو مُنہ کی کھانا پڑے گی: فیاض چوہان
پنجاب حکومت کے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے کہا ہے کہ ''پنجاب اور کے پی میں حکومت کے خواب دیکھنے والوں کو مُنہ کی کھانا پڑے گی‘‘ اگرچہ یہ محاورہ عجیب سا ہے لیکن میں نے محاوروں کے احترام ہی کے پیش نظر اسے من و عن استعمال کر دیا ہے بصورت دیگر اس سے قومی زبان کی بے حرمتی کا شائبہ ہو سکتا تھا کیونکہ اگر ہم کسی اور معاملے میں احتیاط سے کام نہیں لیتے تو کم از کم ہماری قومی زبان کے استعمال کے بارے میں تو ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہیے جبکہ اس طرح ہم دیگر حساس معاملات میں بھی احتیاط پر مائل ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز پی ڈی ایم کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پر اپنے ردِعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
ہمیں خیرات‘ بھیک اورامداد نہیں
موسمیاتی انصاف چاہیے: بلاول بھٹو
وزیر خارجہ اور چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''ہمیں خیرات‘ بھیک اور امداد نہیں‘ موسمیاتی انصاف چاہیے‘‘ کیونکہ وفاقی اقتدار کا موسم گزرے زمانہ ہو چکا ہے اور ہمیں صرف صوبائی اقتدار پر گزارا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ہماری بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں اور اسی وجہ سے میرا آئندہ وزیراعظم بننا بھی بے حد ضروری ہو گیا ہے اور جس کے لیے تھوڑی موسمیاتی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ عوامی خدمت کی وہ ریل پیل دوبارہ شروع ہو سکے جو ایک سہانا خواب ہی بن کر رہ گئی ہے اور جس کی تعبیر نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
حرفِ گماں
رقص تھا میرے چار سُو
دھول ہے ہر طرف رواں
نکلے تھے خواب صبح میں
آ گئیں شب کی بستیاں
گردشِ بے اماں میں ہیں
بڑھتے‘ بکھرتے کارواں
سیلِ وصال و ہجر میں
بندشِ ماہ و سال ہے
خوں میں ہے عمر کی گرہ
سانس میں وقت کی تھکن
دل جو رہا تمہارا گھر
مسکنِ آرزو بھی تھا
گھر میں مکیں رہا کہاں
اور مکیں کو گھر کہاں
لوح فلک ہو یا زمیں
دائمی کیا رہا یہاں
اسمِ فنا پزیر میں
حرفِ گماں رہا کہاں ؟
٭٭٭٭٭
چہل قدمی کرتے ہوئے
کہیں کوئی بستی ہے
خود رو جھاڑیوں اور پھولوں سے بھری
جہاں بارش بے آرام نہیں کرتی
چھینٹے نہیں اڑاتی‘ صرف مہکتی ہے
مٹی سے لپے گھروں میں ہوا شور کرتی
آوازیں سوئی رہتی ہیں
کوئی سرسراہٹوں بھرا جنگل ہے
پگڈنڈیوں اور درختوں کے درمیان
اَن جان پانیوں کی جانب‘ نہریں بہتی ہیں
اور راستے کہیں نہیں جاتے
پرندوں کی چہکاریں‘ لا متناہی عرصے کے لیے
پتوں کو مرتعش کر دیتی ہیں
دنیا سے الگ کہیں ایک باغ ہے
غیر حتمی دوری پر
سیاہ گلابوں اور ابد کی مہک میں سویا ہوا
کہیں کوئی آواز ہے
بے نہایت چپ کے عقب میں
بے خال و خد‘ الوہی‘ گمبھیر
کہیں کوئی دن ہے بے اعتنائی میں لتھڑا ہوا
اور کوئی رات ہے اپنی چمکتی ہوئی آنکھوں کے ہمراہ
جس میں مجھے داخل ہو جانا ہے
یونہی چہل قدمی کرتے ہوئے
اور بجھے آتش دان کے پاس بیٹھ جانا ہے
تمھارے مرجھائے چہرے کی چاندنی میں
کسی مٹیالی دیوار سے ٹیک لگا کر
آج کا مقطع
اک لہر ہے کہ مجھ میں اچھلنے کو ہے ظفرؔ
اک لفظ ہے کہ مجھ سے ادا ہونے والا ہے