عمران خان کی سیاست کا مقصد صرف
اقتدارحاصل کرنا ہے: شہبازشریف
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی سیاست کا مقصد صرف اقتدار حاصل کرنا ہے‘‘ حالانکہ کوئی کام بے لوث ہو کر بھی کرنا چاہیے، جیسا کہ ہماری سیاست کا مقصد قطعاً اقتدار حاصل کرنا نہیں ہے کیونکہ جس مقصد کے لیے اقتدار حاصل کیا جاتا ہے اسے پہلے ہی بھرپور طریقے سے حاصل کر چکے ہیں اور ملک کے معاشی حالات کی بہتری کے منتظر ہیں تاکہ اگر کوئی تھوڑی بہت کسر رہ گئی ہو تو وہ بھی پوری کر لیں؛ چنانچہ اب اقتدار اور حکومت محض عوام کی فلاح کے لیے حاصل کیے جاتے ہیں کیونکہ یہ دنیا چند روزہ ہے اور سب ٹھاٹ یہیں پڑا رہ جائے گا، اس لیے کچھ سامان آگے کے لیے بھی کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
14 جماعتوں نے عوام کے 14
طبق روشن کر دیے: سراج الحق
امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''14 جماعتوں نے عوام کے 14 طبق روشن کر دیے‘‘ جو اس سے پہلے تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے جبکہ ہر ایک جماعت کے ذمے عوام کا ایک طبق روشن کرنا تھا جو کام انہوں نے پوری ذمہ داری سے پورا کر دیا ہے؛ چنانچہ عوام اب اس روشنی میں اپنے روز مرہ کے کام نمٹا رہے ہیں اور ان 14 جماعتوں کے انتہائی شکر گزار بھی ہیں کیونکہ ہمارے عوام احسان فراموش ہرگز نہیں ہیں جبکہ ہم اس تلاش میں ہیں کہ عوام کا کوئی ایک آدھ مزید طبق اندھیرے میں ہو تو اسے بھی روشن کر دیا جائے؛ چنانچہ ہم دعا گو ہیں کہ ہمیں بھی یہ توفیق ملے تاکہ عوام کا ایک آدھ طبق ہم بھی روشن کر سکیں۔ اپ اگلے روز تاندلیانوالہ میں جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیراعظم عوام کوریلیف دینے کے
لیے اقدامات کریں: نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم عوام کو ریلیف دینے کے لیے اقدامات کریں‘‘ اور فی الحال سیاسی ریلیف حاصل کرنے کی کوششیں ترک کر دیں کیونکہ ایک تو ملک عزیز میں ان کی پسند کا ایک بھی ریلیف باقی نہیں بچا ہے اور دوسرا‘ وہ پہلے ہی کافی ریلیف حاصل کر چکے ہیں۔ نیز ضرورت سے زیادہ ریلیف ویسے بھی بدہضمی میں مبتلا کر دیتے ہیں جبکہ ان کو ہضم کرنے کے لیے پھکی بھی استعمال کرنا پڑتی ہے‘ اس لیے اگر وہ مزید ریلیف حاصل کرنے پر مصر ہوں تو پہلے نہایت مجرب قسم کی پھکی تیارکرائیں تاکہ ریلیف کی زیادتی سے کسی قسم کی بدہضمی نہ ہو سکے اور اگر اتحادی چاہیں تو وہ بھی اس نسخے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ سب سے زیادہ اہم چیز انسان کی صحت ہے لہٰذا ہر طرح کی احتیاط خود اپنے لیے بے حد ضروری ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں لیگی رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
خصوصی بچے ہمارے معاشرے کا
بنیادی حصہ ہیں: آصف زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''خصوصی بچے ہمارے معاشرے کا بنیادی حصہ ہیں‘‘ اس لیے وہ سب سے زیادہ توجہ کے مستحق ہیں جبکہ ہم بھی خصوصی توجہ کے حقدار ہیں؛ چنانچہ شروع سے ہی ہماری خاص توجہ اپنے آپ پر مرکوز چلی آ رہی ہے اور جس کے بے حد مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ خصوصیت ہمیشہ یونہی جاری رہے گی اور مجبوراً ہم اپنی توجہ کا خود ہی مرکز بنے رہیں گے جبکہ عوام ایک تو خاصے غیر خصوصی ہیں‘ دوسرا‘ وہ پہلے ہی اپنے پائوں پر کھڑے ہیں اور انہیں کسی توجہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز خصوصی بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
ملک میں استحکام کے لیے جلد الیکشن
ضروری ہیں: عمر سرفراز چیمہ
سابق گورنر پنجاب اور وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر عمر سرفراز چیمہ نے کہا ہے کہ ''ملک میں استحکام کے لیے جلد الیکشن ضروری ہیں‘‘اگرچہ ملک میں پہلے ہی استحکام کی اتنی ریل پیل ہے کہ کسی سے سنبھالے نہیں سنبھل رہا؛ تاہم یہ ایسی چیز ہے کہ جتنی زیادہ ہو اتنی ہی کم ہوتی ہے جبکہ استحکام کی اس بھرمار میں ہمارا قابلِ ذکر حصہ بھی موجود ہے جو ہم اپنی تقریروں میں واضح کرتے رہتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات تو یہ استحکام باقاعدہ چھلکنے لگتا ہے حتیٰ کہ تمام پارٹیوں کے اندر استحکام پیدا کرنے کی باقاعدہ ریس لگی ہوئی ہے اور یہ صحت مندانہ مکالمہ پورے زورو شور سے جاری ہے جبکہ جلد الیکشن سے اس سونے پر سہاگہ ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی غزل:
یہ کیسی اکائی تھی جو تحلیل ہوئی تھی
میں سہل ہوا تھا‘ مری تشکیل ہوئی تھی
دروازہ کسی سمت نکالا نہ گیا تھا
چابی کسی تالے کی نہ تحویل ہوئی تھی
میں شعر کی جس وقت بُنت میں ہوا مشغول
تُو شعر کے آہنگ میں تبدیل ہوئی تھی
آثار کسی شے کے تو سچائی کسی کی
پوری طرح دنیا میں نہ ترسیل ہوئی تھی
یہ کیسے مطالب کا ہوا ذکر بہر سمت
یہ کیسے خیالات کی تاویل ہوئی تھی
سو رنگ کے معنی ہوئے الفاظ سے ظاہر
کس شہر میں سامان کی ترسیل ہوئی تھی
لگتا ہے کہ اتری تھی کسی پھول میں مہکار
لگتا ہے کسی چیز کی تکمیل ہوئی تھی
آج کا مطلع
سفر کٹھن ہی سہی جان سے گزرنا کیا
جو چل پڑے ہیں تو اب راہ میں ٹھہرنا کیا