"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں، متن اور امجد بابر

معیشت ایک دو روز میں خراب نہیں
ہوتی: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''معیشت ایک دو روز میں خراب نہیں ہوتی‘‘ کیونکہ اسے خراب ہونے یا خراب کرنے میں 70 سال لگتے ہیں اس لیے یہ تیس‘ پینتیس سال سے پہلے ٹھیک بھی نہیں ہو سکتی اور اگر ملک کا پیسہ تسلسل سے باہر بھیجا جاتا رہے تو معیشت کے خراب ہونے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے جبکہ اثاثے بھی ملک کے اندر بنائے جا سکتے تھے، نیز کمانا بھی اتنا ہی چاہیے جو گزارے کے لیے کافی ہو اور آج کل یہ سلسلہ اس لیے ٹوٹا ہوا ہے کہ وسائل موجود نہیں ہیں، تو ایسے میں کمائی کس طرح ہو گی اور ملک کی خراب معیشت ٹھیک کیسے ہو گی اور یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں سی پی این ای کی تقریب میں تبادلۂ خیال کررہے تھے۔
شہباز شریف تیس سال کی لوٹ مار کا قوم
کو حساب دیں: فرخ حبیب
پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف تیس سال کی لوٹ مار کا قوم کو حساب دیں‘‘ جبکہ ہم بھی ایسا کرنے کو تیار ہیں لیکن جوکام پہلے ہوا ہو‘ اس کا جواب پہلے آنا چاہیے۔ نیز تیس سال اور ساڑھے تین سال میں بڑا فرق ہوتا ہے اور اس میں ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ جب تک تیس سال کا حساب دیا جاتا رہے گا‘ اتنے میں حساب لینے کا وقت ہی ختم ہو جائے گا اور ہماری باری ہی نہیں آئے گی اور اس لیے جواب مانگتے وقت بڑی ہوشیاری سے کام لیا گیا ہے کیونکہ تھوڑی ہی مدت میں ہم کافی سمجھدار ہو چکے ہیں اس لیے اگر کوئی خوبی آدمی میں کسی وقت پیدا ہو جائے تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ آپ اگلے روز پارٹی رہنما عظیم چودھری کی قیادت میں ملنے والے وفد سے ملاقات کر رہے تھے۔
معیشت بہتری کے بجائے خراب ہوتی
جا رہی ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''معیشت بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوتی جا رہی ہے‘‘ اور اسے ابھی مزید خراب ہونا ہے تاکہ اپنی انتہا کوپہنچ کر یہ واپسی یعنی بہتری کی طرف اپنا سفر شروع کرے اور امید ہے کہ اس وقت تک یہ ہمارے سایۂ شفقت سے بھی محروم ہو چکی ہو گی جبکہ ویسے بھی ہر چیز کی ایک میعاد ہوتی ہے جسے پورا ہونا ہوتا ہے اس لیے حکومت بھی اپنی میعاد ہی پوری کر رہی ہے؛ اگرچہ معیشت کی طرح یہ بھی بہتری کے بجائے خرابی اور زوال کی طرف جا رہی ہے حالانکہ ابھی تو کمال حاصل ہی نہیں کیا تھا۔ آپ اگلے روز محمود خان اچکزئی سے ملاقات اور وفاقی وزیر مولانا عبدالواسع کے دیے گئے ناشتے کے دوران گفتگو کر رہے تھے۔
معیشت کمزوری کی ایک ہی وجہ‘ نااہل کو
کرسی بر بٹھایا گیا: شرجیل میمن
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ ''معیشت کی کمزوری کی ایک وجہ‘ نااہل کو کرسی پر بٹھایا گیا‘‘ اگرچہ یہ بیان نہیں دینا چاہیے تھا کیونکہ یہ پی ڈی ایم کی پالیسی کے خلاف ہے کہ اپنی ہی حکومت، وزرا اور مشیروں کے بارے میں ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہیے لیکن سچ بولنے پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے، نیز مسلم لیگ والے بھی ہمارے بارے میں تنقیدی بیانات دیتے رہتے ہیں جبکہ تنقید ہمیشہ بہتری کی طرف لے کر جاتی ہے اور اپنی خامیوں کا پتا چلتا رہتا ہے جنہیں تنقید کی روشنی میں دور کیا جا سکتا ہے اس لیے ہم سب کو اپنی اپنی خامیوں پرتوجہ دینی اور انہیں درست کرنا چاہیے اور اپنی اصلاح کیے بغیر کوئی سیاسی جماعت ترقی نہیں کر سکتی، سیدھی سی بات ہے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کے ذریعے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
خود کو اب بھی ہیروئن کے کردار کے
لیے فٹ سمجھتی ہوں، میرا
معروف اورسینئر اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ ''خود کو اب بھی ہیروئن کے کردار کے لیے فٹ سمجھتی ہوں‘‘ اگرچہ اکثریت ایسا نہیں سمجھتی ہو گی جو ان کی سمجھ کا قصور ہے؛ تاہم عمررسیدہ اداکارائوں کوبھی ہیروئن بننے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور انہیں اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا جبکہ بزرگ اداکاروں کو ان کے ساتھ بطور ہیرو کاسٹ کیا جا سکتا ہے جن کی تجربہ کاری سے فائدہ اٹھانا چاہیے جبکہ المیہ یہ ہے کہ جب آدمی تجربہ حاصل کر چکا ہوتا ہے‘ مرکزی کردار نبھانے کی عمر ہی ختم ہو جاتی ہے اس لیے پیشتر اس کے کہ عمر مکمل ختم ہو جائے‘ اس تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے، البتہ عمر رسیدہ افراد کو اچھل کود سے پرہیز کرنا ہو گا کیونکہ اس عمر میں ہڈیاں خاصی کمزورہو چکی ہوتی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں امجد بابر کی غزل:
رقص کرتے ہوئے خوابوں سے نکل آتے ہیں
پھول تازہ بھی کتابوں سے نکل آتے ہیں
ہم زمانے کے سمندر سے کنارہ کر کے
کارِ دنیا کے عذابوں سے نکل آتے ہیں
یہ ضروری ہے یہاں بات بھی پردہ کر لے
ورنہ کچھ لوگ حجابوں سے نکل آتے ہیں
ہجر کو خاص تردد نہیں کرنا پڑتا
اب سوالات جوابوں سے نکل آتے ہیں
رات کے بھیس میں یہ خوف زدہ سے لشکر
کتنے بے رنگ سرابوں سے نکل آتے ہیں
اک بھروسے کی دولت ہے توازن قائم
کام میرے بھی طنابوں سے نکل آتے ہیں
نفع و نقصان سے آگے کا سفر ہے امجدؔ
آج ہندسوں کے حسابوں سے نکل آتے ہیں
آج کا مطلع
کھینچ لائی ہے یہاں لذتِ آزار مجھے
جہاں پانی نہ ملے آج وہاں مار مجھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں