گھریلو صارفین کو ریلیف دیا جائے: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''گھریلو صارفین کو ریلیف دیا جائے‘‘ البتہ وہ صارفین جو گھروں کے بغیر ہیں یا سیلاب وغیرہ کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں، ان سے حکومت کی معذرت ہے کیونکہ سیلاب حکومت نہیں لائی اور نہ انہیں بے گھر کیا کیونکہ اس طرح کی آفات قدرت کے کام ہیں اور انہیں دور کرنا بھی قدرت ہی کا کام ہے اور قدرت کے کاموں میں دخل اندازی نہیں کی جانی چاہیے جبکہ ہماری دعا ہے کہ انہیں بھی جلد از جلد ریلیف مل جائے کیونکہ ہم دعا ہی کر سکتے ہیں اور ہماری مناجات قبول بھی ہو جاتی ہیں جیسا کہ ہم نے اپنے لیے جو دعائیں مانگی تھیں وہ ساری قبول ہو چکی ہیں اور ہم بے گھر افراد کے لیے بھی دعائیں مانگ رہے ہیں‘ جو بہت جلد قبول ہو جائیں گی‘ آزمائش شرط ہے۔ آپ اگلے روز دانیال عزیز اور طلال چودھری سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہماری کوشش ہے کہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو: شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''ہماری کوشش ہے کہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو‘‘ جو فریقین کی تقریروں سے پہلے ہی کافی کم ہو چکا ہے اور ہمارے اقتدار میں آنے سے ہی مکمل ختم ہو سکتا ہے کیونکہ اقتدار حاصل کرنے کا مقصد محض سیاسی عدم استحکام ہی ختم کرنا ہے تاکہ جو سیاسی استحکام ہمارے پاس موجود ہے‘ اسے پورے ملک میں پھیلا دیا جائے اور وہ خود بھی باہر نکل آنے کے لیے بے حد بیقرار ہے اور اچھی طرح سے سنبھالا بھی نہیں جا رہا؛جبکہ زیادہ استحکام ویسے بھی خرابی کا باعث بن سکتا ہے اور اپنے معاملات کی درستی کے حوالے سے ہم پہلے ہی کافی فکرمند رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
قبل از وقت الیکشن کا واحد مقصد
لوٹ مار چھپانا ہے: خواجہ سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''قبل از وقت الیکشن کا واحد مقصد لوٹ مار چھپانا ہے‘‘ حالانکہ کرپشن ایسی چیز ہے کہ لاکھ چھپاؤ، چھپ سکتی ہی نہیں جبکہ ہم نے کبھی ایسا تکلف نہیں کیا کیونکہ کرپشن کے بغیر بقول شخصے تیز رفتار ترقی کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا اور کرپشن نہ ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی تیز رفتار ترقی سے ویسے ہی بے نیاز ہو جائے اس لیے اگر ملک کو تیز رفتار ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو کرپشن کو چھپانے کی چنداں کوشش نہیں کرنی چاہیے جبکہ شبانہ روز محنت اور خون پسینے کی کمائی کو کرپشن کہنا سراسر زیادتی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ آدمی لگن اور تندہی سے کام کرنا ہی چھوڑ دے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ترک سفیر سے ملاقات کر رہے تھے۔
سپریم کورٹ سیلاب متاثرین کے
فنڈز کی تحقیقات کرے: سراج الحق
امیرِ جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''سپریم کورٹ سیلاب متاثرین کے فنڈز کی تحقیقات کرے‘‘ اس لیے نہیں کہ ان کے استعمال میں گڑ بڑ کا کوئی احتمال ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ متعلقہ ضرورت سے کم یا زیادہ استعمال نہ ہو جائیں کیونکہ منتظمین کی طرف سے کسی گڑ بڑ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی انہوں نے کبھی ایسا کام کیاہے اور ان کا شاندار ماضی اس کا گواہ بھی ہے اور ملک کی تاریخ ان کی ذاتی قربانیوں سے بھری پڑی ہے اور دنیا بھر میں جس کے چرچے بھی ہو رہے ہیں اور ان کی قربانیوں کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پوری قوم کو ان قربانیوں پر فخر بھی ہے۔ آپ اگلے روز الخدمت فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
اپنے ہی ملک میں ناامیدی
پھیلانا بڑا جرم ہے: پرویز اشرف
سابق وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''اپنے ہی ملک میں ناامیدی پھیلانا بڑا جرم ہے‘‘ کیونکہ اس کام کے لیے اگر ساری دنیا موجود ہے تو پھر اپنے ملک میں اسے پھیلانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ناامیدی پھیلانے کا کوٹہ باہر سے بھی پورا کیا جا سکتا ہے، نیز جب افراتفری اور عدم استحکام جیسی چیزوں کے لیے موزوں ماحول دستیاب ہے تو اسی پر اکتفا کرنا چاہیے اور اس میں ناامیدی کا اضافہ کرنے کی چنداں ضرورت ویسے بھی نہیں ہے،اس لیے اس بات کا خیال رکھنا بیحد ضروری ہے کہ کیا کیا چیزیں ملک کے اندر پھیلائی جا سکتی ہیں اور کیا کیا نہیں اور یہی زندہ قوموں کا شیوہ بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں سی ای او سمٹ سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
نہ سمجھ سکے کہ یہ کس خزاں کی بہار ہو گئے
کہ جو ہنستے ہنستے ہی کتنے زار و قطار ہو گئے
یہ سفر بھی آخری نہیں تھا کہ وہیں سے ہم
کہیں بھی نہ پہنچے تھے اور گرد و غبار ہو گئے
سفر آدھا ہی ابھی کٹا تھا کہ اچانک آپ
مجھے چھوڑ کر کسی اور بس میں سوار ہو گئے
جو ہم اپنے گرد ہی گھومتے رہے عمر بھر
تو یہی ہوا کہ بس آپ اپنا مدار ہو گئے
جنہیں ڈھونڈتے بھی کہیں نہ کوئی اماں ملی
اسی جستجو میں خود اپنے گھر سے فرار ہو گئے
جو ملی تو ہم کو شناخت اتنی ہی مل سکی
جو ہوئے تو ہم کئی دوسروں میں شمار ہو گئے
نہیں کھل سکے تھے جو پھول میری زمین پر
وہی آسمان پہ جا کے نقش و نگار ہو گئے
وہی اس کے حال پہ چھوڑ کر جسے آئے تھے
تو اُسی کے سامنے جا کے عرض گزار ہو گئے
اسی آبِ رود کو ہو گی کوئی خبر ظفرؔ
کہ ہم آر ہو نہ ہو سکے تھے یا کہیں پار ہو گئے
آج کا مطلع
یہاں سب سے الگ سب سے جدا ہونا تھا مجھ کو
مگر کیا ہو گیا ہوں اور کیا ہونا تھا مجھ کو