ایک ایک انچ پر حکومتی رٹ
بحال رکھیں گے: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ایک ایک انچ پر حکومتی رٹ بحال رکھیں گے‘‘ کیونکہ ہم اکائیوں میں یقین رکھتے ہیں جیسا کہ کرپشن کے الزام پر ایک ایک دھیلے اور ایک ایک پائی کا حساب دینے پر تیار ہو گئے تھے لیکن کسی نے حساب نہیں لیا کیونکہ ملک عزیز میں دھیلوں اور پائیوں کا رواج ہی نہیں تھا؛ چنانچہ اسی طرح ایک اور ایک انچ مل کر دو انچ بنتے ہیں اس لیے دو انچ کی حد تک یہ رٹ ضرور برقرار رکھی جائے گی اور اگر کسی کو یقین نہیں آتا‘ جیسا کہ اکثر حکومتی اعلانات کا نہیں آتا‘ تو بیشک ناپ کر دیکھ لے‘ دو انچ کی حد تک حکومتی رٹ بہر صورت نظر آ جائے گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں سکیورٹی سے متعلق ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
سندھ کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم
نے مل کر تباہ کیا: سراج الحق
امیرِ جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''سندھ کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے مل کر تباہ کیا‘‘ اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مل کر کوئی کام کرنے میں بڑی برکت ہے؛ تاہم میرے خیال میں یہ جماعتیں یہ کام انفرادی طور پر اور علیحدہ علیحدہ رہ کر بھی کر سکتی تھیں اور سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کی خدمات بڑی واضح ہیں جو کئی دہائیوں سے اس صوبے کی حکمران چلی آ رہی ہے اور یہ پہلے بھی کافی کام کامیابی سے سرانجام دے چکی تھی اس لیے ایم کیو ایم نے تو اس ضمن میں تکلف ہی کیا ہے جبکہ اصولی طور پر اس کام کے لیے ایک ہی پارٹی کافی تھی لہٰذا مل کر کام کرنے کے لیے ان دونوں کو کسی دوسرے منصوبے پر کام کرنا چاہئے۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں بلدیاتی کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان رواں سال جیل
جائیں گے: منظور وسان
پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان نے کہا ہے کہ ''عمران خان رواں سال جیل جائیں گے‘‘ اور سال کے شروع میں یہ پیش گوئی اس لیے کی گئی ہے کہ 31 دسمبر تک اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہیے جبکہ میری پیش گوئی اس طرح بھی پوری ہو سکتی ہے کہ وہ کسی دورے پر کسی جیل میں چلے جائیں کیونکہ میں نے یہی کہا ہے کہ وہ جیل جائیں گے اور جب سے پیش گوئیاں ناکام ہونا شروع ہوئی ہیں‘ اس سلسلے میں کافی احتیاط سے کام لے رہا ہوں اور اُن میں کافی مارجن بھی رکھتا ہوں تاکہ اگر پیش گوئیاں مکمل طور پر پوری نہ بھی ہوں تو بھی کم از کم سچ کے قریب ہونے کا شائبہ ضرور موجود ہو۔ آپ اگلے روز کراچی میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
انتقام کی اندھی خواہش نے ملک
کو اس نہج پر پہنچا دیا: جاوید لطیف
مسلم لیگ نواز کے رہنما اور وفاقی وزیر جاوید لطیف نے کہا ہے کہ ''انتقام کی اندھی خواہش نے ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا‘‘ حالانکہ اصل انتقام تو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کر کے لیا جا چکا ہے اور اس کے بعد ایسی کوئی خاص بات نہیں تھی جس کا انتقام لیا جاتا، اس لیے اس سلسلے میں محض اپنا وقت ضائع کیا گیا ہے جو کسی اچھے مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا اور ملک اس نہج پر پہنچنے سے بھی بچ جاتا لیکن بدلہ ابھی پورا نہیں ہوا اور معیشت کی صورت حال بھی پتلی سے پتلی ہوتی چلی جا رہی ہے اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انتقام کا جذبہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے اور انتقام بھی اس حد تک کہ اس سے ملک کا بھی نقصان ہوتا رہے‘ کسی بھی حکومت کو زیب نہیں دیتا۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ روڈ پر ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
شوہر کو شادی کے لیے لڑکیاں دکھاتے
دکھاتے اُنہیں میں پسند آ گئی: صحیفہ جبار
اداکارہ صحیفہ جبار نے کہا ہے کہ ''شوہر کو شادی کے لیے لڑکیاں دکھاتے دکھاتے اُنہیں میں پسند آ گئی‘‘ جبکہ اس میں پہلی چالاکی تو یہ تھی کہ جتنے بھی رشتے انہیں دکھائے‘ وہ زیادہ تر منگنی شدہ تھے اور جو منگنی کے بغیر تھے‘ وہ ایسے تھے کہ ان کے پسند آنے کا سوال پیدا ہی نہ ہوتا تھا چنانچہ چار و ناچار اور تنگ آ کر انہیں مجھے ہی پسندکرنا پڑا حالانکہ اصولی طور پر یہ کام انہیں شروع میں ہی کر لینا چاہیے تھا اور میرے بجائے دیگر رشتے دیکھنا بالکل بھی مناسب نہ تھا؛ تاہم تلافیٔ مافات کا مرحلہ طے ہو گیا اور اس طرح میری سکیم بھی مکمل طور پر کامیاب ہو گئی جس پرمیں شاباش کی مستحق ہوں۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنی شادی کے حوالے سے گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں رسم نامی کی غزل:
پرانے زخم تازہ کرنے آیا تھا
کہ سالِ نو بھی دھندہ کرنے آیا تھا
میں کم سے کم بھی کر پایا نہ دنیا میں
زیاد سے زیادہ کرنے آیا تھا
جڑیں ہی کاٹ لی ہیں اُس نے گلشن کی
خزاں کا جو ازالہ کرنے آیا تھا
وہ مجھ سے پوچھتا ہے اب پتا اپنا
پتا جو شخص میرا کرنے آیا تھا
مسیحا نے کیا پہلے سے بھی ابتر
مجھے حالانکہ اچھا کرنے آیا تھا
پڑا ہے قبر کی خونخوار مٹی میں
جو اپنا نام اونچا کرنے آیا تھا
اْسی نے زیرِ بارِ غم کیا مجھ کو
جو میرا بوجھ ہلکا کرنے آیا تھا
اندھیروں میں دھکیلا اُس نے بستی کو
یہاں جو بھی اجالا کرنے آیا تھا
اِدھر کا ہے نہ وہ نامیؔ اُدھر کا ہے
جو جنت میں بسیرا کرنے آیا تھا
آج کا مطلع
بکھر بکھر گئے الفاظ سے ادا نہ ہوئے
یہ زمزمے جو کسی درد کی دوا نہ ہوئے