عمران خان کی معاشی پالیسیاں موجودہ
صورتحال کی ذمہ دار ہیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی معاشی پالیسیاں موجودہ صورت حال کی ذمہ دار ہیں‘‘ اور منصوبہ بندی اور پالیسیوں کا نتیجہ ہمیشہ ہی غلط نکلتا ہے‘ اس لیے سارا کام کسی دلچسپی کے بغیر اور دونوں ہاتھوں سے کیا جس کے لیے کسی لمبی چوڑی پالیسی کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ کام ہی بڑا سیدھا سادہ تھا‘ اور یہ کسی پالیسی کے بغیر زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتا ہے جو کر کے دکھا بھی دیا اور جسے دنیا بھر نے دیکھا اور حیران بھی ہوئی بلکہ اس کام کو لوگ ہوتا بھی دیکھ رہے تھے اور ہنر مندی کی داد بھی دے رہے تھے۔ آپ اگلے روز لندن میں پارٹی رہنمائوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کشکول مشن سے ملک نہیں‘ صرف حکمرانوں
کے حالات تبدیل ہوئے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''کشکول مشن سے ملک نہیں‘ صرف حکمرانوں کے حالات تبدیل ہوئے‘‘ اور یہ بھی عین غنیمت ہے کیونکہ اگر اس سے کسی کے بھی حالات تبدیل نہ ہوتے تو کیا کیا جا سکتا تھااور یہ تشویشناک بات بھی ہوتی؛ تاہم اگر حکمرانوں کے حالات تبدیل ہوئے تو یہ ایک طرح سے ملک کے ہی حالات تبدیل ہوئے ہیں کیونکہ حکمران بھی تو ملک ہی کے باشندے ہوتے ہیں بلکہ ملک کے اصل باشندے کہلوانے کا حق بھی انہی کو حاصل ہے جو بڑے بڑے امتحانات سے گزر کر کامیاب ہوئے تھے؛ تاہم اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا تو کبھی نہ کبھی ملک کی باری بھی آ ہی جائے گی کہ امید پر دنیا قائم ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی آرٹس کونسل میں ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
محسن نقوی اپنی قابلیت سے ناقدین کے
منہ بند کر دیں گے: آصف علی زرداری
سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''محسن نقوی اپنی قابلیت سے ناقدین کے منہ بند کر دیں گے‘‘ جس طرح دیگر نے اپنی قابلیت سے ناقدین کے منہ بند کر دیے تھے اور جو ابھی تک بند ہیں کیونکہ لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو جگانا کوئی آسان کام نہیں جو کافی گہری نیند سوئے ہوئے تھے؛ چنانچہ اس مہنگائی سے انہیں بچانے کی غرض سے ان کی بھرپور تلافی بھی کی گئی جس سے ان کی معیشت اس قدر مضبوط ہو گئی کہ آگے کئی نسلوں تک ان کا سلسلہ چلتا رہے گا۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
عوام وزیراعظم سے سوال کر سکتے ہیں
کہ مفتاح کو کیوں نکالا؟ مفتاح اسماعیل
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ ''عوام وزیراعظم سے سوال کر سکتے ہیں کہ مفتاح کو کیوں نکالا؟‘‘اور اب انہیں صاف اشارہ دیا جا رہا لیکن ابھی تک وہ چپ سادھے بیٹھے ہیں حالانکہ اس سلسلے میں کئی بار انہیں متوجہ کیا گیا مگر پھر بھی کسی کو تاحال وزیراعظم سے یہ سوال کرنے کی توفیق نہیں ہوئی جو کہ سستی اور کاہلی کی انتہا ہے حالانکہ میں اس سلسلے میں کئی بار یاد دہانی بھی کرا چکا ہوں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہے؛ تاہم امید ہے کہ وہ اس کوتاہی کی تلافی کسی وقت کر دیں گے اور ایک زندہ قوم کے افراد ہونے کا ثبوت فراہم کریں گے۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
شوبز میں خواتین اداکارائوں
میں حسد انتہا پر ہے: میرا
سینئر فلم اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ ''شوبز میں خواتین اداکارائوں میں حسد انتہا پر ہے‘‘ لیکن حسد کی اس فراوانی کے باوجود مجھ پر حسد کرنا چھوڑ دیا گیا ہے حالانکہ اب بھی مجھ سے حسد کرنے کے پورے پورے امکانات موجود ہیں جبکہ میری سنیارٹی پر بھی بجا طور پر حسد کرنے کی پوری پوری گنجائش موجود ہے کیونکہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ عمر کا تین چوتھائی حصہ اتنا تجربہ حاصل کرنے میں ہی خرچ ہو جاتا ہے اس لیے مجھے نظر انداز کرنا بجائے خود ایک تنگ نظری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں دیے گئے ایک انٹرویو میں گفتگو کرر ہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
نوید شیر تو کیا شیر کی وہ دھاڑ نہ تھے
پہاڑ لگتے تھے خالی مگر پہاڑ نہ تھے
رہا تعلّقِ ہمواری جڑ سے جانے تلک
اکھڑ گئے تو وہاں پہلے سے اکھاڑ نہ تھے
تھے اپنے وقت کی کایا پلٹنے میں مصروف
لگے ہوئے تھے جو آبادی کو اُجاڑ نہ تھے
کسی نگاہِ جہاں آفریں کے کہنے پر
گئے تھے بھاڑ میں ہم اور پھر وہ بھاڑ نہ تھے
اُڑا کے رکھ دیا شیشے کی پیش دستی نے
ہم اپنی آڑ تھے لیکن کسی کی آڑ نہ تھے
نکل کے آ گئے ہم اپنے اپنے پتھر سے
پلٹ کے دیکھا تو اپنی جگہ پہاڑ نہ تھے
ہوا نے ہم کو اور اُن کو کہاں پہ رکھ ڈالا
بگڑ کے دیکھ لیا اتنے تو بگاڑ نہ تھے
ہماری راہ میں کس وقت کی حویلی تھی
ہم اُس میں پڑتی ہوئی ایک بھی دراڑ نہ تھے
اٹھا کے رکھ دیا ویسے کا ویسا زلزلوں کو
ذرا سا پیچ ہی کھایا تھا اور پچھاڑ نہ تھے
پھلانگنے میں نویدؔ آخری زقند گئی
وہ فاصلے تھے کوئی شاخِ گُل کی باڑ نہ تھے
آج کا مقطع
سانچے تو تھے غزل کے سوا بھی مگر ظفرؔ
کیا جانے کیوں یہ ظرف حسین تر لگا مجھے