"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اورابرار احمد

عمران معیشت تباہ کرنے پر معافی مانگیں: اسحاق ڈار
وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ''عمران معیشت تباہ کرنے پر قوم سے معافی مانگیں‘‘ اگرچہ یہ تو پہلے ہی تباہ تھی جسے مزید تباہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی اور یہ تو ایسے ہی ہے جیسے گھوڑے پر کاٹھی ڈال دی گئی ہو تو اس پر دوبارہ کاٹھی ڈالنے کو کہا جائے اور اگر وہ معافی مانگنے پر آ ہی جائیں تو ہماری طرف سے بھی مانگ لیں کیونکہ ہم معیشت کو مزید تباہ کرنے والوں کو اندر کرنے میں مصروف ہیں جبکہ ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ ایک ہی کام ہو سکتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ویڈیو کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
(ن) لیگ میں ہوں اور یہیں
سے گھر جاؤں گا: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''(ن) لیگ میں ہوں اور یہیں سے گھر جاؤں گا‘‘ کیونکہ اب پارٹی میں جو دھڑے بازی قائم ہونے کا تاثر اُبھرا ہے‘ اس کے نتیجے میں کافی لوگ گھر جانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں کیونکہ پارٹی میں کسی بھی اہم عہدے کے لیے شریف خاندان کا وارث ہونا ضروری ہے‘ زیادہ تر لوگ اس کیٹیگری میں نہیں آتے اور جس میں کسی کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریکِ گفتگو تھے۔
پولیس اور ایف آئی اے سوچ
سمجھ کر لال حویلی آئے: شیخ رشید
پاکستان عوامی لیگ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''پولیس اور ایف آئی اے سوچ سمجھ کر لال حویلی آئے‘‘ کیونکہ بغیر سوچے سمجھے کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہیے ورنہ ناکامی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اس لیے میں نے بھی سوچنے سمجھنے کی عادت ڈالنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا ہے جبکہ پولیس اور ایف آئی اے کو مجھ سے ہی کوئی سبق سیکھ لینا چاہیے کیونکہ ہم سے اب زیادہ سے زیادہ سبق ہی سیکھا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
کرپشن ایک لعنت‘ کسی بھی
صورت قابلِ قبول نہیں: گورنر پنجاب
گورنر پنجاب بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ ''کرپشن ایک لعنت‘ کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں‘‘ لیکن ہم اسے زیادہ سے زیادہ ناقابلِ قبول ہی قرار دے سکتے ہیں‘ اسے ختم نہیں کر سکتے کیونکہ اسے ایک مستقل نظریے اور رواج کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے اور لوگوں نے بھی آخر تنگ آ کر اسے کرپشن کہنا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے اس لیے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے قانونی قرار دے دیا جائے اور اس پر اسی ذوق و شوق سے عمل کرنا شروع کر دیا جائے جس طرح دوسرے قوانین پر ہو رہا ہے۔ آپ فاطمہ جناح یونیورسٹی کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
پرویز الٰہی نے فواد کے لیے جو
کہا قابلِ قبول نہیں: عمران اسماعیل
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق گورنر سندھ عمران اسماعیل نے کہا ہے کہ ''پرویز الٰہی نے فواد کے لیے جو کہا قابلِ قبول نہیں‘‘اگرچہ انہوں نے بعد میں اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے لیکن مستقل مزاجی کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں اپنی بات پر قائم رہنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ایک ذمہ دار آدمی ہیں اور اگرچہ وہ اب وزیراعلیٰ نہیں رہے لیکن ایک سابق وزیراعلیٰ بھی کوئی کم ذمہ دار نہیں ہوتا‘ ویسے بھی اپنی کہی ہوئی بات سے مُکر جانا کسی شریف آدمی کو زیب نہیں دیتا جبکہ ان کے شریف ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ابرار احمد کی شاعری:
کسی انتظار کی جانب
ازل سے چلتے رہے ہیں مگر کھڑے ہیں وہیں
دیارِ دیدہ و دل میں وہی دھندلکا ہے
اسی زمیں پہ قدم ‘ سر پہ آسماں ہے وہی
کہیں پہ دور کہیں ہم کو جا کے ملنا تھا
کسی خیال سے‘اک خواب خوش نما کی طرف
نکلتے جانا تھا ٹوٹے ہوئے خمار کے ساتھ
نہ جانے کیا تھا جسے ڈھونڈنے نکلنا تھا
رہ وجود میں اڑتے ہوئے غبار کے ساتھ
رہے اسیر در و بامِ زندگی ہر دم
وہی جو خستہ تھے معمولِ روز و شب کی طرح
بس ایک چاک پہ ہم گھومتے رہے
سو اب خرام کریں راہِ معذرت پہ کہیں
تھکن سے بیٹھ رہیں کنج عافیت میں کہیں
کہیں سے توڑ دیں دیوارِ ایستادہ کو
جدھر کو جا نہیں پائے‘ ادھر نکل جائیں
جو منتظر تھا ہمارا ‘ جو راہ تکتا تھا
جو ہم پہ وا نہیں ہوتا‘ جو ہم پہ کھلتا نہیں
جو ہم پہ کھلتا نہیں‘ اس حصار کی جانب
کسی طلب کو‘ کسی انتظار کی جانب !
٭٭٭٭٭
ایک چہرہ
میرے ماتھے کی چمک میں ہے
کسی اور زمانے کی جھلک
میرے ہونٹوں پہ لرزتے ہیں
کسی اور ہی دل کے نغمے
میرے کاندھے پہ چہکتے ہیں
کسی اور زمیں کے پنچھی
دور افتادہ کسی بستی میں‘بادلوں میں کہیں
برفیلی ہواؤں سے لرزتے ہوئے دروازوں میں
یاد کرتا ہے مجھے ایک چہرہ کوئی میرے جیسا
یا پھر آنکھیں ہیں کوئی‘ گہرے سمندر جیسی
جن میں بہتا چلا جاتا ہے وہ چہرہ
کسی ٹوٹے ہوئے پتے کی طرح
یا وہ چہرہ ہے کہیں مٹی میں
پاس آتا ہے ‘ بلاتا ہے مجھے
مجھ سے ملتا ہے نہ ملنے کی طرح
کسی آئندہ زمانے کی تھکن کی مانند
عہدِ رفتہ کی جھلک کی صورت
جانے اس چہرے کی پہچان ہے کیا
جانے اس کا یا مرا نام ہے کیا ؟
آج کا مقطع
پیش رفت اور ابھی ممکن بھی نہیں ہے کہ ظفرؔ
ابھی اس شوخ پہ کچھ زور ہمارا کم ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں