دہشت گردی پر توجہ دیں‘ سیاسی لڑائی
بعد میں لڑیں گے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردی پر توجہ دیں‘ سیاسی لڑائی بعد میں لڑیں گے‘‘ اور اس وقت ساری توجہ دہشت گردی پر دینے ہی کی ضرورت ہے کیونکہ سیاسی لڑائی تو ویسے ہی ہمارے لیے بے سود ہے کیونکہ سیاسی لڑائی اقتدار حاصل کرنے کے لیے لڑی جاتی ہے اور اقتدار اپنی اور عوام کی حالت بہتر بلکہ مزید بہتر بنانے کے لیے حاصل کیا جاتا ہے اور جس کے لیے ملک میں وسائل کی فراوانی بے حد ضروری ہے جو کہ اس وقت نہ ہونے کے برابر ہیں‘ اس لیے سیاسی لڑائی لڑنا محض اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اقوام متحدہ کے وفد سے گفتگو کر رہے تھے۔
پی ڈی ایم‘ پی ٹی آئی کرسی کے لیے
برسرِپیکار ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم‘ پی ٹی آئی کرسی کے لیے برسرِپیکار ہیں‘‘ جو محض کم عقلی کی دلیل ہے کیونکہ کرسی تو بازار میں فرنیچر والی کسی بھی دکان سے آسانی سے مل سکتی ہے‘ اس کے لیے آپس میں برسرِپیکار ہونے کی کیا ضرورت ہے بلکہ کرسی کی نسبت صوفہ زیادہ آرام دہ ہے جو تھوڑا زیادہ خرچہ کرنے پر بازار سے دستیاب ہو سکتا ہے۔ اس لیے قومی سطح کے رہنماؤں اور جماعتوں کو ایسی چھوٹی چھوٹی اور معمولی چیزوں پر لڑنا ہرگز زیب نہیں دیتا؛ تاہم اگر یہ لڑائی کسی بڑی چیز کے لیے ہو تو الگ بات ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
(ق) لیگ کی کمر میں خنجر گھونپنے والے
گھر کے رہے نہ باہر کے: سالک حسین
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر چودھری سالک حسین نے کہا ہے کہ ''(ق) لیگ کی کمر میں خنجر گھونپنے والے گھر کے رہے نہ باہر کے‘‘ جبکہ ان کا طریقہ بھی سراسر غلط تھا، کیونکہ کمر میں یعنی پیچھے سے وار کرنا ویسے بھی بزدلی کی نشانی ہے جبکہ دشمن پر وار ہمیشہ سامنے سے کیا جاتا ہے اگرچہ اس وار کی بھی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پارٹی میں گنتی کے دو‘ چار لوگ ہی باقی رہ گئے تھے جن کا ہونا نہ ہونا برابر تھا، نیز ان کے بارے میں یہ سوچ کر بھی پریشان ہیں کہ اگر وہ گھر کے بھی نہیں رہے تو اب کہاں رہ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز (ق) لیگ کی قیادت سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے پر اپنا ردِعمل ظاہر کر رہے تھے۔
ٹی ٹی پی بندوق کے زور پر اپنی حکومت
قائم کرنا چاہتی ہے: قمر زمان کائرہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور وزیراعظم کے مشیر قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ''ٹی ٹی پی بندوق کے زور پر اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے‘‘ اور اسے شاید معلوم نہیں کہ اس طرح حکومت نہیں قائم کی جا سکتی اور یہ صرف عوام کو بہلا پھسلا کر اور روٹی کپڑا اور مکان جیسے سبزباغ دکھا کر ہی حاصل کی جا سکتی ہے جس کے بعد دونوں ہاتھوں سے عوامی خدمت کا عمل پورے زور و شور سے شروع ہو جاتا ہے اور پھر چل سو چل‘ اس لیے بندوق کے استعمال کو چھوڑ کر پیار محبت والا ہتھیار استعمال کرنا ضروری ہے اور اگر یقین نہ آئے تو آزماکر دیکھ لیا جائے یا سیاسی تاریخ پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں شریکِ گفتگو تھے۔
شاہ رخ خان نہ ہوتے تو
میں یہاں نہ ہوتی: دیپکا
بالی وُڈ کی معروف اداکارہ دیپکا پڈوکون نے کہا ہے کہ ''اگر شاہ رخ خان نہ ہوتے تو میں یہاں نہ ہوتی‘‘ بلکہ کسی اور شہر میں ہوتی حالانکہ ممبئی ہر لحاظ سے ایک قابلِ رہائش شہر ہے، جس میں ساحلِ سمندربھی ہے اور جس سے دوری میرے لیے کسی صورت بھی قابلِ برداشت نہیں ہے؛ تاہم میں اندازہ لگا رہی ہوں کہ اگر شاہ رخ خان نہ ہوتے تو میں واقعی کسی اور شہر میں ہوتی اور یہ ترقی نہیں بلکہ ایک طرح سے تنزلی ہی ہوتی؛ البتہ بیرونِ ملک کسی شہر کی رہائشی ہوتی تو الگ بات ہے اور پریانکا چوپڑا بھی تو بیرونِ ملک ہر طرح کے عیش و آرام کے مزے لوٹ رہی ہے۔ آپ اگلے روز اپنی فلم پٹھان کی کامیابی پر گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں آزاد حسین آزادؔکی غزل:
تو کیا یہ تال میل مرے ہم نشیں ہے ٹھیک؟
میں بھی ہوں کچھ خراب سا‘ تو بھی نہیں ہے ٹھیک
ہو بھی غلط تو کون یہاں مانتا ہے دوست
ہر شخص میرے شہر میں اپنے تئیں ہے ٹھیک
اُس جا چکے کے بارے میں اتنا کہوں گا میں
اس دل میں رہ رہا ہے ابھی اور یہیں ہے ٹھیک
دل سے نکل کے دشت میں بیٹھے ہوؤں کو دیکھ
جو جس جگہ کی چیز ہو لگتی وہیں ہے ٹھیک
خوش تُو بھی ہے‘ اداس نہیں میں بھی میرے دوست
جس کو رکھا خدا نے جہاں وہ وہیں ہے ٹھیک
غربت تمہارا شکر بڑی کام آئی ہو
سب سانپ مر چکے ہیں‘ مری آستیں ہے ٹھیک
تم اپنے دل سے پوچھ لو میں کیسا شخص ہوں
مالک تمہیں بتائے گا خود ہی‘ مکیں ہے ٹھیک
وہ ٹھیک ہے یہ سوچ کے ہی بیٹھتا ہے دل
اور ایسا سوچنا بھی کہیں سے نہیں ہے ٹھیک
آزادؔ شعر ہوں گے مگر صبر کر کے بیٹھ
زرخیز قافیہ ہے ترا اور زمیں ہے ٹھیک
آج کا مقطع
یاوہ گو تھا ظفرؔ اس عہد خرابی میں کوئی
یاوہ گو ہی اسے کہتے ہیں سخن ور کوئی تھا