عمران ہمیں رلانے کا کہہ رہا تھا یا
اُن کو جو آج رو رہے ہیں: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران ہمیں رلانے کا کہہ رہا تھا یا اُن کو جو آج رو رہے ہیں‘‘ اگرچہ ہمیں تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ہمیں تو اُس وقت سے رلایا جا رہا ہے جب میں کہتا تھا کہ مجھے کیوں نکالا؟ اس کے بعد منی ٹریل دینے پر مجبور کرکے بھی رلایا جاتا رہا‘ حتیٰ کہ ایک شہزادے کے خط نے بھی رلا دیا اور اب مستقبل میں بھی رونا دھونا ہی نظر آ رہا ہے جبکہ میں یہاں بیٹھا بھی یہی کر رہا ہوں اور واپس آنے کا نام نہیں لے رہا۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیر کھیل وہاب ریاض کو ٹائٹ کرنا پڑے گا: بابراعظم
پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے کہا ہے کہ ''وزیر کھیل پنجاب وہاب ریاض کو ٹائٹ کرنا پڑے گا‘‘ کیونکہ اگر وہ وزیر ہو گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں اسے ٹائٹ نہیں کر سکتا‘ اگرچہ میں خود بھی ٹائٹ ہونا چاہتا ہوں کیونکہ پچھلے کچھ میچوں کے دوران بیٹنگ میں میری کارکردگی مایوس کن ہی رہی ہے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ میں کسی نہ کسی طرف سے ڈھیلا ہو گیا ہوں اور مجھے کسنے کی ضرورت ہے اور اس فریضے سے خود نجم سیٹھی ہی عہدہ برآ ہو سکتے ہیں‘ اس لیے بہتر ہے کہ وہ ہم دونوں کو ایک ساتھ ہی ٹائٹ کر دیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
ایک بیمار شخص نے جھوٹ‘ گالی
اور گولی کو قومی کلچر بنا دیا: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور نواز لیگ کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ایک بیمار شخص نے جھوٹ‘ گالی اور گولی کو قومی کلچر بنا دیا‘‘ جبکہ جو ہر لحاظ سے تندرست تھے انہوں نے اپنی مہارت اور ہنرمندی کو بروئے کار لاتے ہوئے جو کارنامے سرانجام دیے وہ اندھوں کو بھی صاف نظر آ رہے ہیں اور جن کے مظاہر ملک کے اندر اور باہر ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور جن کی وجہ سے آج ملک بھر میں خوشحالی دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہے اور ہر چیز اتنی فراوانی سے دستیاب ہے کہ کچھ چیزیں بالکل مفت بھی مل رہی ہیں۔ آپ اگلے روز سوشل میڈیا ٹیم کے اجلاس کی صدارت کر رہی تھیں۔
ساتھی اداکاراؤں سے سخت مقابلہ کرتی ہوں: میرا
اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ ''میں ساتھی اداکاراؤں سے سخت مقابلہ کرتی ہوں‘‘ کیونکہ جوں جوں عمر بڑھتی جا رہی ہے ساتھی اداکاراؤں سے میرا مقابلہ توں توں سخت سے سخت تر ہوتا جا رہا ہے جبکہ آج سے بیس پچیس سال پہلے یہ مقابلہ نارمل ہوا کرتا تھا بلکہ اب تو پروڈیوسر حضرات مفاوضے میں سے میک اَپ کے پیسے بھی کاٹ لیتے ہیں جو اب کچھ زیادہ ہی کرنا پڑتا ہے حالانکہ انہیں اور نہیں تو میری پیشہ ورانہ خدمات کا ہی کچھ لحاظ کرنا چاہیے، تاہم میں نے ہمت نہیں ہاری اور مقابلے کی سختیوں کو پوری ہمت سے برداشت کرتی چلی جا رہی ہوں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو کے دوران اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
صحت یاب مریضوں کی گھروں میں
واپسی ان کا بنیادی حق ہے: محسن نقوی
نگران وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ ''صحت یاب مریضوں کی گھروں میں واپسی ان کا بنیادی حق ہے‘‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ صحت یاب ہونے کے بعد بھی وہ گھر واپس جانے کا نام نہیں لیتے کیونکہ مہنگائی ہی اس قدر خوفناک ہے کہ گھر کا تصور کرتے ہی اُن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے بلکہ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح گھر والوں کو بھی ہسپتال داخل کرا دیں جبکہ اس مسئلے کا حل یہی ہو سکتا ہے کہ پورے صوبے ہی کو ایک ہسپتال میں منتقل کر دیا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور پریس کلب کے ایک سینئر ممبر کی والدہ کے انتقال پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
تری دنیا کے نقشے میں
تری دنیا میں جنگل ہیں ‘ہرے باغات ہیں
اور دور تک پھیلے بیاباں ہیں
کہیں پر بستیاں ہیں ‘روشنی کے منطقے ہیں
پہاڑوں پر اترتے بادلوں میں
رقص کرتا ہے سمندر چار سو
اسی انبوہ کا حصہ نہیں ہوں میں
کہاں ہوں میں
میں تیرے لمس سے اک آگ بن کر پھیلنا
تسخیر کی صورت بپھرنا چاہتا تھا
اور اترا ہوں کسی بے مہر سناٹے کے میداں میں
ہزیمت کی دہکتی ریت پر
بکھرا پڑا ہوں شام کی صورت
میں جینا چاہتا تھا تیری دنیا میں
ترے ہونٹوں پہ کھلتے نام کی صورت
کہیں دشنام کی صورت‘کہیں آرام کی صورت
میں آنسو تھا ترے چہرے پہ آ کر پھول دھرتا تھا
ترے دکھ پر گرا کرتا تھا قدموں میں
اے چشم تر کہاں ہوں میں
اندھیرے سے بھری آنکھوں میں
چلتی ہے ہوا ہر سو
اور اڑتے جا رہے ہیں راستے اس میں
زمانوں کے کناروں سے‘ ابد کے سرد خانوں تک
ہوا چلتی ہے ہر سو اور اس کی ہم رہی میں
دو قدم چلتا نہیں ہوں میں ‘ہجوم روز و شب میں
کس جگہ سہما ہوا ہوں میں ‘کہاں ہوں میں
تری دنیا کے نقشے میں ‘کہاں ہوں میں
آج کا مقطع
جتنے فاصلے پر رکھتا ہے ظفرؔ وہ مجھ کو
رہ بھی سکتا ہوں لیکن کیا رہ سکتا ہوں