ملک کو معاشی مسائل درپیش ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ملک کو معاشی مسائل درپیش ہیں‘‘ اور چونکہ خاکسار بھی اس ملک کا ایک ادنیٰ فرد ہے اس لیے میں بھی معاشی مسائل کا شکار ہونے سے کیسے بچ سکتا ہوں‘ لیکن میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو تیار نہیں ہوں کیونکہ بقول غالب ؎
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچھا ہے
اس لیے اگر مخیر حکومتیں اور ادارے خود ہی اس کا نوٹس لے لیں تو میں انہیں خوش آمدید کہوں گا کیونکہ نیکی کے کسی کام میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک ملاقات میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
شہباز شریف ٹیکسوں کے لیے عوام
پر چھری چلا رہے ہیں: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف ٹیکسوں کے لیے عوام پر چھری چلا رہے ہیں‘‘ جو کہ درست اور کارگر نہیں ہے کیونکہ چھری چلانے سے ٹیکس اکٹھے ہونے کے بجائے خون برآمد ہوگا جو معیشت کے لیے ہرگز سودمند نہیں ہو سکتا‘ اس لیے انہیں عوام کی جیب تراشی پر زور دینا چاہیے تھا تاکہ کچھ حاصل وصول بھی ہو‘ ا گرچہ عوام کی جیبیں مکمل طور پر خالی ہیں اور ماسوائے بجلی گیس کے بلوں کے ان میں سے کچھ بھی برآمد نہیں ہو سکتا‘ اس لیے انہیں اپنی حکمت عملی تبدیلی کرنا ہوگی۔ آپ اگلے روز اوکاڑہ میں 'مار گئی مہنگائی‘ کنونشن سے خطاب کر رہے تھے۔
پارٹی انتخابات کے لیے بھرپور
تیاری کرے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''پارٹی انتخابات کے لیے بھرپور تیاری کرے‘‘ اور میری واپسی کی ہرگز کوئی امید نہ رکھے جبکہ میری واپسی سے پارٹی کو کوئی فائدہ ہونے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا کہ پارٹی رہنما سرکاری مہمان خانے میں مجھ سے ملاقاتیں کریں گے یا الیکشن کی تیاری‘ اس لیے میری واپسی کے لیے پارٹی کوئی عدالتی انتظام بھی کرے۔ اگرچہ مریم نواز آج کل پارٹی کی جو خدمت کر رہی ہیں‘ اس کے بعد یہ کام مزید مشکل تو ہو سکتا ہے‘ آسان نہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میرے سینے میں راز ہیں‘ انہیں
دفن رکھنا چاہتا ہوں: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''میرے سینے میں راز ہیں‘ انہیں دفن رکھنا چاہتا ہوں‘‘ کیونکہ گڑے مردے اکھاڑنا ویسے بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے‘ تاہم خطرہ یہ بھی ہے کہ کہیں وہ قبر پھاڑ کر خود ہی نہ باہر نکل بھاگیں جس سے خطرہ ہے کہ ان کی آخری آرام گاہ یعنی میرا سینہ بھی متاثر ہوگا اور انہیں اس لیے بھی دفن رہنا چاہیے کہ ان کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ ان کا دفن رہنا ہی پارٹی کے بہترین مفاد میں ہے جبکہ قبر میں مستقل رہنے کی وجہ سے وہ مجھے بھی پریشان کرتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
آج کے گلوکار گلوکاری کے لیے نشہ کرتے ہیں: فہیم روفی
کلاسیکل سنگر فہیم عباس روفی نے کہا ہے کہ ''آج کے گلوکار گلوکاری کے لیے نشہ کرتے ہیں‘‘ اور نشہ کرتے ہی وہ عالمِ بالا میں پہنچ جاتے ہیں جس سے ان کی آواز میں ایک ارتفاع پیدا ہو جاتا ہے‘ اس لیے کلاسیکل گلوکاروں کو بھی اس سے استفادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ اپنی آواز میں مزید بانکپن پیدا کر سکیں لیکن میں خود چونکہ پہلے ہی کافی بلند آہنگ واقع ہوا ہوں اس لیے مجھے اس کے استعمال کی چنداں ضرورت نہیں ہے‘ تاہم اس سے چونکہ آواز پکی ہو جاتی ہے‘ اس لیے اس کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز ایک پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شریک تھے۔
اور اب آخر میں ڈاکٹر ابرار احمد کی نظم:
اُڑتی پھری کہاں پر
بے فیض ساعتوں میں ‘منہ زور موسموں میں
خود سے کلام کرتے ‘اکھڑی ہوئی طنابوں
دن بھر کی سختیوں سے ‘اکتا کے سو گئے تھے
بارش تھی بے نہایت
مٹی سے اٹھ رہی تھی ‘خوشبو کسی وطن کی
خوشبو سے جھانکتے تھے‘گلیاں مکاں دریچے
اور بچپنے کے آنگن ‘اک دھوپ کے کنارے
آسائشوں کے میداں‘اڑتے ہوئے پرندے
اک اجلے آسماں پر ‘دو نیم باز آنکھیں
بیداریوں کی زد پر ‘تا حدِ خاک اڑتے
بے سمت بے ارادہ
کچھ خواب فرصتوں کے ‘کچھ نام چاہتوں کے
کن پانیوں میں اترے ‘کن بستیوں سے گزرے
تھی صبح کس زمیں پر اور شب کہاں پہ آئی
مٹی تھی کس جگہ کی ‘اڑتی پھری کہاں پر
اس خاک داں پہ کچھ بھی دائم نہیں رہے گا
ہے پاؤں میں جو چکر ‘قائم نہیں رہے گا
دستک تھی کن دنوں کی‘آواز کن رتوں کی
خانہ بدوش جاگے
خیموں میں اڑ رہی تھیں ‘آنکھوں میں بھر گئی تھیں
اک اور شب کے نیندیں
اور شہر بے اماں میں ‘پھر صبح ہو رہی تھی
آج کا مطلع
تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے
کہ سیدھا چاہتا ہوں اور الٹا ہو رہا ہے