عمران خان کی حفاظت کے
بارے میں فکر مند ہوں: صدر علوی
صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ ''میں عمران خان کی حفاظت کے بارے میں فکر مند ہوں‘‘ حالانکہ وہ خود ذرا بھی فکرمند نہیں ہیں بلکہ انہیں گرفتار کرنے والے زیادہ فکرمند ہیں کہ وہ کھلے عام گھوم رہے ہیں اور پھر بھی ہاتھ نہیں آ رہے بلکہ اصل بات تو شاید یہ ہے کہ انہیں خود ہی گرفتار نہیں کیا جا رہا کیونکہ اس صورت میں وہ اور زیادہ مقبول ہو جائیں گے حالانکہ گرفتار کرنے کی ناکام کوششوں سے بھی اُن کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے‘ اس لیے حکومت‘ بقول خواجہ آصف‘ بھگانے اور تھکانے کی پالیسی پر ہی اکتفا کر رہی ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
عمران خان کو بہادری سے کام لیتے ہوئے
خود گرفتاری دے دینی چاہیے: نواز شریف
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو بہادری سے کام لیتے ہوئے خود گرفتاری دے دینی چاہیے‘‘ یا بہادری سے کام لیتے ہوئے ملک سے باہر بھاگ جانا چاہیے؛ اگرچہ یہ گرفتاری دینے سے زیادہ مشکل کام ہے کیونکہ بیرونِ ملک جانے کے لیے جواز تلاش کرنے کی خاطر طرح طرح کے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں جو عمران خان کی استطاعت سے باہر ہیں، چنانچہ انہیں ان مثالوں سے ہی سبق سیکھنا چاہیے کہ کئی بہادر مزے سے لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ ڈاکٹرز بھی بہادری سے متاثر ہو کر انہیں آنے نہیں دے رہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
دامن صاف نہ ہو تو عدالتوں
کا سامنا نہیں ہوتا: احسن اقبال
وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''دامن صاف نہ ہو تو عدالتوں کا سامنا نہیں ہوتا‘‘ اور یہ بات سراسر ہمارے مخالفین کے لیے ہے اور دامن ہمارے قائدِ محترم کا آئینے کی طرح صاف ہے؛ تاہم عدالت کا سامنا کرنے سے وہ بھی گریز کر رہے ہیں اور اس وقت تک واپس نہیں آئیں گے جب تک ان کا دامن مزید صاف کرنے کی کارروائی بار آور نہیں ہو جاتی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ انہیں بھیجنے والے بھی ان کا سامنا کرنا نہیں چاہتے کیونکہ ابھی تک ان کے ضامن سے جواب طلبی کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
لڑکوں کو شادی کا شوق ہوتا ہے
اور پھر روتے ہیں: مریم نفیس
اداکارہ مریم نفیس نے کہا کہ ''لڑکوں کو شادی کا شوق ہوتا ہے اور پھر روتے ہیں‘‘ کیونکہ بیوی کے سلوک کے سامنے وہ رو ہی سکتے ہیں کیونکہ بیویاں عام طور پر ا س بات کا ذرا بھی خیال نہیں رکھتیں کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جو سلوک کررہی ہیں وہ ان کے شایانِ شان نہیں ہے اس لیے شادی کے شوقین لڑکوں کو شادی کرنی ہی نہیں چاہیے اور دنیا سے کنارہ کشی کر لینی چاہیے تاکہ ان کی عاقبت سنور جائے بلکہ اگر وہ تارک الدنیا ہو جائیں تو ان کی عاقبت اور صحت‘ دونوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
سب رنگ کی کہانیاں
یہ ہمارے دوست شکیل عادل زادہ کا نگارخانہ ہے جس میں ان کے مشہور و معروف جریدے ''سب رنگ‘‘ سے شائع ہونے والی کہانیوں کا انتخاب شائع کیا گیا ہے اور جسے حسن رضا گوندل نے تشکیل دیا ہے۔ یہ دراصل سمندر پار کے انگریزی میں شائع ہونے والے افسانوں کا ترجمہ ہے۔ انتساب آشفتگانِ سب رنگ کے نام ہے۔ پسِ سرورق حسن نثار ا ور سلمیٰ اعوان کی رائے درج ہے۔ افسانوں کی کل تعداد37 ہے۔ افسانہ نگاروں میں موسپاں سے لے کر ژاں پال سارتر شامل ہیں۔ زبان شستہ اور انداز دلفریب ہے۔ گیٹ اَپ نہایت عمدہ جو اس کتاب کے شایانِ شان بھی ہے۔ فکشن، اور خاص طور پر انگریزی فکشن سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک انمول تحفے سے کم نہیں ہے۔
اور‘ اب آخر میں مبشر سعید کی غزل:
کوئی ملتا ہی نہیں سوختہ پا میری طرح
جس کو معلوم ہو وحشت کا پتا میری طرح
میرے جیون کو اُداسی سے ملانے والا!
دشت میں پھرتا رہے آبلہ پا میری طرح
میں نے احباب کو آواز لگا کر پوچھا
کوئی رہتا ہے شبِ غم میں سدا‘ میری طرح؟
اے کئی دن سے مرے ذہن پہ چھائے ہوئے شخص
تو مجھے وصل کے سپنے نہ دکھا میری طرح
رات بھر چاند کو احوال سنانے کے لیے
کیا ٹھہرتی ہے دریچوں میں ہوا‘ میری طرح؟
زندگی! میری طرف دیکھ کے ایماں سے بتا
ایک بھی شخص کوئی تجھ کو ملا‘ میری طرح
تند اور تیز ہواؤں کے علاقے میں سعیدؔ
زیست کرتا ہے فقط دل کا دِیا میری طرح
آج کا مطلع
دریا دور نہیں اور پیاسا رہ سکتا ہوں
اس سے ملے بغیر بھی زندہ رہ سکتا ہوں