معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی
مدد اولین ترجیح ہے: شہباز شریف
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''معاشی مشکلات کے باوجود غریب عوام کی مدد اولین ترجیح ہے‘‘ اگرچہ سابق ادوار میں ہماری بیسیوں اولین ترجیحات ہوا کرتی تھیں؛ تاہم اس وقت کفایت شعاری سے کام لینے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک دنیا جانتی ہے کہ معاشی مشکلات کی زد میں غریب عوا م کے ساتھ ساتھ حکمران بھی آئے ہوئے ہیں، اس لیے غریب عوام نہ سہی کم از کم امیر عوام کو ہی کھل کھلا کر حکومت کی مدد کرنی چاہیے جن کی ملک عزیز میں کوئی کمی نہیں ہے‘ خاص طور پر تاجر برادری کو! جبکہ حکومت کی مدد اپنی برادری ہی کے لوگوں کی مدد ہو گی۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ناراض رہنمائوں کے پاس جانے کو
تیار ہوں: چودھری شجاعت
مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ ''ناراض رہنمائوں کے پاس جانے کو تیار ہوں‘‘ اگرچہ یہ قدم پہلے اٹھا لینا چاہیے تھا مگر اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے اور چونکہ آج کل بالکل فراغت ہے‘ اس لیے گھر میں بیٹھے رہنا قطعی مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ جن رہنمائوں کے پاس جائوں گا‘ ان کے پاس بھی مجھے فراغت ہی ہو گی اور ہو سکتا ہے میں چودھری سرور کو بھی ساتھ لے جائوں کیونکہ ہماری پارٹی جوائن کرنے کے بعد سے وہ بھی آج کل فراغت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں پارٹی رہنمائوں کے اجلاس سے مخاطب تھے۔
انتشار پھیلانے کا ایجنڈا بے نقاب ہو گیا: رانا ثنا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''عمران خان کا افراتفری اور انتشار پھیلانے کا ایجنڈا بے نقاب ہو گیا‘‘ اور اسے بے نقاب ہونے میں دیر اس لیے لگی کہ ہم اس نقاب کو اینٹی کورونا ماسک سمجھتے رہے جبکہ دیگر کے ایجنڈے کے بے نقاب ہونے کا امکان اس لیے نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں‘ سرعام ہی کرتے رہے ہیں اورنقاب وغیرہ پہننے کا کبھی تکلیف نہیں کیا جبکہ پیسہ چھپانے یا باہر بھیجنے کے لیے کسی نقاب کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ سراسر ہنرمندی کا کمال ہے نیز اسے چھپانے کیلئے کوئی نقاب ہوتا بھی نہیں جبکہ آئے دن نئے سے نئے بنتے اثاثے بھی سب کے سامنے ہی ہوتے ہیں۔ آپ اگلے رروز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہونی چاہیے: کنور دلشاد
نگران وزیراعلیٰ کے مشیرِ خصوصی اور پاکستان الیکشن کمیشن کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد نے کہا ہے کہ ''عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہونی چاہیے‘‘ اور چونکہ میں اس طرح کی پیش گوئیاں کرتا ر ہتا ہوں اس لیے مجھے نگران حکومت کا منظور وسان بھی کہا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اس بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے ہیں‘اس لیے کسی ایک کو سزا دینا اور باقی افراد کو چھوڑ دینا بہت مشکل معلوم ہوتا ہے؛ تاہم جب ٹھان لی جائے تو کوئی مشکل‘ مشکل نہیں رہتی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
لڑکیوں کو امیر شوہر کی تلاش رہتی ہے: سونالی کلکرنی
بھارتی ادارہ سونالی کلکرنی نے کہا ہے ''بھارتی لڑکیوں کو امیر شوہر کی تلاش رہتی ہے‘‘ تاکہ وہ ان کاخرچہ اٹھا سکے اور اگر شوہر اس معیار پر پورا اتر سکے تو بھی یہ خواہش تشنہ ہی رہتی ہے کیونکہ شوہر کو عام طور پر اس بات کا کوئی اثرنہیں ہوتا کیونکہ وہ امیر ہونے کے ساتھ ساتھ کنجوس بھی ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر امیر آدمیوں کا خاصا ہے بلکہ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا اپنا خرچہ بھی کوئی اور اٹھا لے تاکہ گاڑی چلتی رہے۔ آپ اگلے روز ممبئی میں ایک ایونٹ کے دوران گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ اب ناروے سے فیصل ہاشمی کی تازہ نظم:
بے یاد افق
سوچ کی راہیں چکرا کر ان دلدلی
رخنوں میں گرتی ہیں
جن میں گئے ایام کی روحیں، میرے
شعور میں جیتی مرتی، تیز ہراساں
بھٹک رہی تھیں!
مردہ سانچوں میں زخموں کے رِستے سورج ڈھلنے لگے ہیں
لمبے سفر کے اَنت پہ دل میں، اب کے
کوئی خوشی بھی جاگی نہیں ہے
میں نے خود کو زندہ ہونے کی
بس ایک تسلی دے کر
نامعلوم سمے کے در میں
داخل ہونے سے روکا ہے،
...روک لیا ہے !
لیکن جن راہوں پر چل کر میں نے
ٹکڑے چنے تھے
...کھلی ہوئی اک دھوپ کے ٹکڑے
جن میں کچھ سایوں کے گھر تھے
...گھر تو خیر انہیں کیا کہتے
ان کے لیے ہی وہ سب گھر تھے
جو اس وقت زمیں پر تھے اور میرے
ساتھ چلے تھے،
جن کے اک اک دکھ کا مداوا
اس بے حالی کی ڈھارس کے
اندر بند تھا
جو ذہنوں کی بیماری
اور گئے دنوں کی تہذیبوں کا ایک چلن تھا
جن میں دعائیں یاسیت کا مول
چکاتی رہتی تھیں!
اب وہ کہاں ہیں...
میں تو اب بھی
اک بے یاد افق کے پیچھے
ازل‘ ابد کے بوجھ کے نیچے
اپنے گماں کی نم مٹی میں
ان سایوں کو ڈھونڈ رہا ہوں!
آج کا مطلع
کچھ نہیں سمجھا ہوں اتنا مختصر پیغام تھا
کیا ہوا تھی جس ہوا کے ہاتھ پر پیغام تھا