میں نے ملک سے باہر نہیں بھاگنا:عمران خان
سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ ''میں نے ملک سے باہر نہیں بھاگنا‘‘ کیونکہ میں پاکستان کے اندر ہی اتنا بھاگ چکا ہوں اور جہاں تک ممکن ہو سکا‘ مزید بھی بھاگتا رہوں گا جبکہ حکومت میرے پیچھے ہے اور میں اس کے آگے آگے۔ اس لیے مجھے ملک سے بھاگنے کی ضرورت ہے نہ فرصت اور ملک کے اندر بھاگتے رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ میرے پٹھے خاصے مضبوط ہو گئے ہیں اور حکومت کے بھی بلکہ بعض اوقات تو میں حکومت کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں‘ مگر وہ پھر بھی اندھا دھند بھاگ رہی ہوتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
وزیر داخلہ منفی مہم چلانے والوں کے
ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''وزیر داخلہ منفی مہم چلانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹیں‘‘ جو کہ سٹیل مل میں تیار کردہ پہلے سے ہی کافی تعداد میں موجود اور دستیاب ہیں اور اگر یہ کافی نہ ہوں تو آرڈر پر مزید بھی تیار کرائے جا سکتے ہیں بلکہ زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو مستقل طور پر ہی آہنی ہاتھوں میں تبدیل کر لیں کیونکہ جب تک حکومت میں ہیں ان کی ضرورت پڑتی ہی رہے گی اور وہ ایک ہاتھ ضرور آہنی بنوا لیں تاکہ کھانے پینے کے لیے دوسرا ہاتھ موجود ہو۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
معاشی، سیاسی، آئینی بحران بڑھ گیا
سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''معاشی، سیاسی، آئینی بحران بڑھ گیا، سب کو مل کر کردار ادا کرنا ہو گا‘‘ جبکہ معاشی بحران زیادہ تشویش انگیز ہے کیونکہ اس کی زد میں سیاستدان بھی آئے ہوئے ہیں اس لیے یہ مسئلہ جلد از جلد اور مکمل طور پر حل ہونا چاہیے، ایسے تمام ذرائع ختم ہو چکے ہیں جو اس کیلئے مددگار ثابت ہو سکتے تھے جبکہ ملکی خزانے کی حالت سیاستدانوں اور حکومت سے بھی نازک ہو چکی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
نگران وزیر اعلیٰ کا بیان تمام شہریوں
کیلئے کھلی دھمکی ہے: شیریں مزاری
پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما شیریں مزاری نے کہا ہے کہ ''نگران وزیراعلیٰ کا بیان تمام شہریوں کیلئے کھلی دھمکی ہے‘‘ جبکہ حکمران اگر کچھ کرنا چاہیں تو جرأت سے کام لے کر کر گزرتے ہیں اور دھمکیاں نہیں دیتے جبکہ نگران ہونے کے باوجود ان کے پاس مکمل اختیارات موجود ہیں، نیز شہریوں نے تو کسی بات یا کام کا کوئی جواب دینا ہی نہیں ہوتا اس لیے شہریوں کے ممکنہ ردعمل کا بھی کوئی خطرہ موجود نہیں تھا، اس لیے حکمرانوں کو کم از کم اپنے عہدے کی لاج ضرور رکھنی چاہئے۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک ٹویٹ کر رہی تھیں۔
عمران خان کے غلط فیصلوں کا خمیازہ
قوم آج بھگت رہی ہے: (ن) لیگ
مسلم لیگ نواز کے رہنما ملک اسد علی اشرف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کے غلط فیصلوں کا خمیازہ قوم آج بھگت رہی ہے‘‘ جبکہ ہمارے غلط فیصلوں کا خمیازہ قوم پہلے ہی نہایت کامیابی کے ساتھ بھگت چکی ہے جس سے اسے انہیں بھگتنے کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہو چکا ہے اس لیے خمیازہ بھگتنا اس کے اب کوئی مسئلہ نہیں رہا اور جو یہ خوشی خوشی اور نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ بھگت رہی ہے اور یہ آئندہ بھی ہر خمیازے کو ہنسی خوشی بھگتنے کے لیے ہر وقت تیار ہے اس لیے غلط فیصلے کرنے والوں کو اب کوئی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
خمارِ شب میں زمیں کا چہرہ نکھر رہا تھا
کوئی ستاروں کی پالکی میں اتر رہا تھا
نہا رہے تھے شجر کسی جھیل کے کنارے
فلک کے تختے پہ چاند بیٹھا سنور رہا تھا
ہوائیں دیوار و در کے پیچھے سے جھانکتی تھیں
دھواں لپیٹے کوئی گلی سے گزر رہا تھا
کھڑا تھا میری گلی کے باہر جہان سارا
میں خواب میں اپنے آپ سے بات کر رہا تھا
زمیں کی گردش کشش سے آزاد ہو رہی تھی
وہ کہکشاؤں میں دھیرے دھیرے بکھر رہا تھا
پسند تھی گفتگو اسے اور سلسلوں کی
وہ اور دنیا کی کھوج میں عمر بھر رہا تھا
کسی کے سپنے کی روشنی ماتھے پر تھی اس کے
حنا کا غنچہ ہتھیلیوں پر وہ دھر رہا تھا
ہوا کا جھونکا اداس کر کے چلا گیا ہے
ابھی ابھی تو میں جامِ غفلت کو بھر رہا تھا
مگر مقفّل نویدؔ در تھا گئے دنوں کا
نہ جانے کب تک تلاش میں نامہ بر رہا تھا
آج کا مقطع
اور تو لایا نہ تھا پیغام ساتھ اپنے ظفرؔ
جو بھی تھا اس کا یہی عیب و ہنر پیغام تھا