بنچ ٹوٹنا نشاندہی کرتا ہے سب ٹھیک نہیں: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''بنچ ٹوٹنا نشاندہی کرتا ہے کہ سب ٹھیک نہیں‘‘ اور اگر بنچ نہ ٹوٹتا تو بھی یہاں سب ٹھیک نہیں تھا کیونکہ بنچ اگر ٹوٹا ہے تو جڑ بھی جائے گا۔ سارا کچھ جو پہلے ہی سے ٹھیک نہیں ہے‘ اسی طرح رہے گا‘ جو تمام تر کوششوں کے باوجود خراب ہو گیا تھا کیونکہ خراب چیز اگر خراب طریقے سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو جاتی ہے۔ حالانکہ جو کچھ کیا گیا تھا ٹھیک طریقے ہی سے کیا گیا تھا کیونکہ اگر خراب چیز ٹھیک طریقے سے بھی کی جائے تو بھی خراب ہی رہتی ہے۔ آپ اگلے روز سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
طاقتور کیلئے قانون کو موم کی ناک بنا دیا گیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''طاقتور کے لیے قانون کو موم کی ناک بنا دیا گیا ہے‘‘ اور بنیادی غلطی یہی تھی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ موم کو اگر موڑا جائے تو وہ کھڑی نہیں رہے گی بلکہ ٹوٹ جائے گی۔ اگر طاقتور کے لیے قانون کو مڑنے کے قابل بنانا تھا تو موم کے بجائے کسی اور چیز سے کام لیا جاتا جو ٹوٹنے کے بجائے آسانی سے مڑ سکتی جبکہ ناک جیسی نازک چیز بنانا اخلاقی طور پر بھی درست نہیں ہے کیونکہ ناک کا بنیادی کام سانس لینا ہے اور کم از کم موم کی ناک سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ سانس بھی لے سکے بلکہ یہ ناک تو رگڑنے کے قابل بھی نہیں ہوتی اور ریزہ ریزہ ہو کر رہ جاتی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں جمعیت طلبہ عربیہ کی مرکزی شوریٰ سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے: بلاول بھٹو زرداری
چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے‘‘ اگرچہ یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کیونکہ یہ جب سے بنا ہے‘ نازک دور ہی سے گزر رہا ہے اور یہ بات سب جانتے بھی ہیں کیونکہ اسے نازک دور سے گزارنے کی کوششیں بھی مسلسل کی جاتی رہی ہیں اور جس میں ہر کسی نے بڑھ چڑھ کر حسبِ توفیق حصہ لیا ہے جبکہ ویسے بھی اسے نازک دور سے گزرنے کی عادت پڑ چکی ہے اور اس کی نزاکت میں اضافہ تو ہو سکتا ہے‘ کمی نہیں۔ آپ اگلے روز راولپنڈی میں بین المذاہب افطار ڈنر سے خطاب کر رہے تھے۔
مقررہ وقت پر الیکشن نہ ہوئے تو
ہم سڑکوں پر ہوں گے: فواد چودھری
سابق وفاقی وزیر اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما فواد چودھری نے کہا ہے کہ ''اگر مقررہ وقت پر الیکشن نہ ہوئے تو ہم سڑکوں پر ہوں گے‘‘ اگرچہ ہم پہلے ہی سڑکوں پر ہیں اور اس کی عادت بھی پڑ چکی ہے کیونکہ سڑکیں اگر بنائی گئی ہیں تو ان کا مناسب استعمال بھی ہونا چاہئے اور اس ضرورت کا احساس اور اس کی پاسداری بڑے ذوق و شوق سے کر رہے ہیں، جبکہ اگر سڑکوں کو ہمارا دوسرا گھر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ہم نے انہیں کس کس طرح سے آباد کر رکھا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک ٹی وی پروگرام میں شریکِ گفتگو تھے۔
گمانِ کامل
یہ جواد اشرف کا مجموعۂ کلام ہے، انتساب ماں جی اور پیاری بہن کے نام ہے۔ اس میں نظمیں اور غزلیں‘ دونوں شامل ہیں جبکہ زیادہ زور نظموں پر ہے۔ کتاب کسی دیباچے کے بغیر ہے‘ اندرون اور بیرونِ سر ورق کو بھی شاعر نے اپنے منتخب کلام سے سجا رکھا ہے، اشعار میں تازگی اور ایک طرح کی جدت کا احساس ہوتا ہے۔ یہ نئے اور اچھے شعرا میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ نمونۂ کلام کے طور پر چند اشعار پیش خدمت ہیں:
جو عذاب ہے مری جان پر ترا خواب ہے
جو یقین سا ہے گمان پر ترا خواب ہے
نہ سخن وری‘ نہ فسوں گری‘ نہ حکایتیں
جو اتر رہا ہے بیان پر ترا خواب ہے
میں مثالِ آہوئے بے اماں ہوں جہان میں
جو تنا ہوا ہے کمان پر ترا خواب ہے
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
یہ ہوگا خواب کے اندر کہ بیداری کی صورت میں
کہ تیرے ساتھ ہو جائوں گرفتاری کی صورت میں
ابھی تو ایک دو ہی بار کا ملنا ہے ناممکن
ملاقاتیں کہاں ہوں گی لگاتاری کی صورت میں
پڑا رہ جائے گا وہ کام سارا اور پھر اس کے بعد
نظر آئیں گے پہلے جس کی تیاری کی صورت میں
تمہارا اور اپنا بوجھ رہتا ہے مرے سر پر
یہ سب کچھ چل رہا ہے بار برداری کی صورت میں
کھلا دیکھا جو بازارِ محبت سر بسر ہم نے
تو سب کچھ بیچ آئے ہیں خریداری کی صورت میں
ملا موقع اگر تو آشیاں ہم بھی بنائیں گے
ابھی آغاز ہے جس کا شجرکاری کی صورت میں
جو سر ہوتا نہیں وہ مرحلہ ہے باریابی کا
ترے در تک تو آ پہنچے ہیں لاچاری کی صورت میں
نکل جاتے ہیں منزل سے بہت آگے جو کچھ ایسا
نکلتا ہے نتیجہ تیز رفتاری کی صورت میں
کہیں بیگار ہی مل جائے تو بھی کم نہیں اس کی
ظفرؔ اب اور کیا چاہیں گے بے کاری کی صورت میں
آج کا مطلع
کبھی اول نظر آنا کبھی آخر ہونا
اور وقفوں سے مرا غائب و حاضر ہونا