عمران صاحب! آپ ماضی کا حصہ
ہوتے جا رہے ہیں: مریم اورنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''عمران صاحب! آپ ماضی کا حصہ ہوتے جا رہے ہیں‘‘ اور ہم سے زیادہ یہ جاننے کا دعویٰ اور کس کو ہو سکتا ہے کیونکہ ہم بھی ایک شاندار ماضی کا حصہ ہیں اور یہی ہماری جمع پونجی بھی ہے جبکہ مستقبل سے ویسے ہی بے نیاز ہو چکے ہیں کیونکہ ماضی سے باہر نکلنے کی فرصت ہی نہیں جس پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں؛ اگرچہ عمران صاحب کا حکومتی ماضی ایسا نہیں ہے کہ اس پر زیادہ فخر کیا جا سکے کیونکہ اس کا دورانیہ بے حد مختصر ہے اور جس کا ہمارے دورانیے کے ساتھ کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہی تھیں۔
لوگ آٹے کی بوری کیلئے اپنی جان
دے رہے ہیں: یاسمین راشد
پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے کہا ہے کہ ''لوگ آٹے کی بوری کیلئے اپنی جان دے رہے ہیں‘‘ اور یہ بات کافی فکر انگیز ہے کہ ملک میں جان اس قدر بے وقعت اور سستی ہو چکی ہے کہ بے حد معمولی چیز کے عوض بھی اسے قربان کر دیا جاتا ہے۔ کسی مقصد کے لیے اس کی قربانی دینا انتہائی اطمینان بخش اور قابلِ ستائش ہو سکتا ہے مگر اس میں آٹے کی بوری شامل نہیں ہے؛ اگرچہ اس سے آٹے جیسی نعمت کی قدر افزائی کا پہلو سامنے آتا ہے اور ملک عزیز کی تاریخ میں اس رجحان کا فروغ پانا قابلِ قدر ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
شاہ محمود موسم دیکھ کر پارٹیاں بدلتے ہیں: شرجیل میمن
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ ''شاہ محمود قریشی موسم دیکھ کر پارٹیاں بدلتے ہیں‘‘ حالانکہ کسی خاص موسم کا کسی پارٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ پارٹیاں بدلنے جیسے نامناسب کام کے لیے کسی موسم کو استعمال کرنا قابلِ اعتراض بات بھی ہے کیونکہ موسموں کا تقاضا تو یہ ہے کہ ان سے ہر ممکن حد تک لطف اندوز ہوا جائے چہ جائیکہ انہیں پارٹیاں بدلنے کے کام کے لیے استعمال کیا جائے جبکہ ملک عزیز طرح طرح کے موسموں سے لبریز ہے جن سے فائدہ اٹھانا فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کا ایک ثبوت بھی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
پہلے اپنا ہائوس اِن آرڈر کرنا چاہیے: چودھری سرور
مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ''چیف جسٹس کو پہلے اپنا ہائوس اِن آرڈر کرنا چاہئے‘‘ جس طرح میں نے آتے ہی (ق) لیگ کا ہائوس اِن آرڈر کیا ہے؛ اگرچہ اس کے مکین اکا دکا ہی ہیں لیکن اس کے ہائوس ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا جس میں چودھری شجاعت کا بھاری بھرکم سیاسی وجود بھی شامل ہے، چنانچہ اگر اس ہائوس کے کچھ مکین ادھر اُدھر ہیں تو جلد از جلد انہیں گھیر کر لانے کی کوششیں بھی شروع کردی ہیں جو جلد ہی اور ضرور رنگ لائیں گی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں فیصل آباد سے شہزاد بیگ کی تازہ غزل:
مہتاب جیسے اجلے پرندے وجود میں
دیکھے ہزار اڑتے پرندے وجود میں
پر پھڑپھڑا رہے تھے کئی دن سے آج کل
کچھ خواہشوں کے رنگلے پرندے وجود میں
خود کو جو میں نے اُن کے لیے نخل کر دیا
چھائوں میں آن بیٹھے پرندے وجود میں
نیلابِ چشم بن گیا ہے میرا ہست و بود
اور آ گئے ہیں بہتے پرندے وجود میں
دیکھا جو آج ذات کے پنجرے کو کھول کر
بے سُدھ ہوئے پڑے تھے پرندے وجود میں
چھیڑا ہزار بار تری نسبتوں کا گیت
اترے نہ گیت گاتے پرندے وجود میں
لے کے پڑے ہوئے ہیں اب منقارِ زیر پر
صحنِ چمن کے اجڑے پرندے‘ وجود میں
منکر مرے وجود کا کرتا رہا سوال!
کیسا وجود؟ کیسے پرندے وجود میں
گریہ کناں ہوں اس لیے شہزادؔ بیگ آج
پائے ہیں میں نے مرتے پرندے وجود میں
آج کا مطلع
بے وفائی کرکے نکلوں یا وفا کر جاؤں گا
شہر کو ہر ذائقے سے آشنا کر جاؤں گا