الیکشن فیصلہ آئین و قانون سے سنگین مذاق: وزیراعظم
وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''الیکشن فیصلہ آئین و قانون سے سنگین مذاق ہے‘‘ اور ایسا سنگین کہ ہنستے ہنستے آدمی پتھر ہو جائے کیونکہ جب تک پولنگ سٹیشنوں پر ہماری مرضی کے افسر نہ ہوں اور جب تک حالات بھی ہمارے ساتھ نہ ہوں‘ ہم الیکشن کیسے لڑ سکتے ہیں۔ اس صورت میں اس فیصلے اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہاتھ باندھ کر ہمیں اکھاڑے میں اتار دیا جائے اور اگر پنجاب ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے، یہ سرا سر ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ آپ اگلے روز اتحادی جماعتوں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
جنہوں نے جیل میں ہونا تھا وہ ہماری وجہ
سے وزیر ہیں: راجہ ریاض
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ''جنہوں نے جیل میں ہونا تھا وہ ہماری وجہ سے وزیر ہیں‘‘ اور ہماری حالت ان کی وجہ سے ناقابلِ بیان حد تک پتلی اور خراب ہو چکی ہے اور ہمیں وہ بدنامی ہی بچی ہے جو انہیں اقتدار میں لانے کیلئے ہمارے نصیب میں آئی تھی اور ہم پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں، حالانکہ ہم اب بھی روپے پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتے ہیں جسے صاف کرنے کا ہمیں موقع ہی نہیں ملا جبکہ دوسرے لفظوں میں:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم، نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
آپ اگلے روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کر رہے تھے۔
تختِ لاہور پر بیٹھ کر غیر جمہوری قوتوں
کو جواب دیں گے: بلاول بھٹو
چیئرمین پی پی پی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''تختِ لاہور پر بیٹھ کر غیرجمہوری قوتوں کو جواب دیں گے‘‘ جس کیلئے ہم نے ایک تخت پوش تیار کرا لیا ہے کیونکہ اصل تخت تو اب خواب و خیال ہو کر ہی رہ گیا ہے اور یہ تخت پوش غیرجمہوری قوتوں کو ہمارا جواب بھی ہوگا جو دندان شکن ثابت ہوگا، تاہم ہم الیکشن میں اپنے امیدوار بھی کھڑے کریں گے۔ آپ اگلے روز گمبٹ میں پہلے ہیلتھ سٹی کا افتتاح کر رہے تھے۔
شادی کیلئے اندھے اور پاگل انسان کی تلاش : سارہ خان
بھارتی اداکارہ سارہ خان نے کہا ہے کہ ''شادی کیلئے اندھے اور پاگل انسان کی تلاش ہے‘‘ جس کیلئے میں بہت جلد نابینا اور پاگل حضرات کو انٹرویو کی دعوت دوں گی اور جس کی خاص وجہ یہ ہے کہ شادی کیلئے اندھے شوہر کا ہونا اس لیے ضروری ہے کہ وہ دوسروں پر نظر نہ رکھ سکے اور یہ رشتہ کامیابی کیساتھ چلتا رہے جبکہ شوہر کا پاگل ہونا بھی ضروری ہے تاکہ بیوی کی ہر بات کو پاگل پن قرار دے کر نظرانداز کیا جا سکے۔ لہٰذا جو شخص پاگل بھی ہو اور اندھا بھی اسے ترجیح دی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز ممبئی میں ایک پوڈ کاسٹ میں شریک تھیں۔
نقش بر آب
یہ شہناز خانم عابدی کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔ انتساب عبداللہ جاوید کے نام ہے۔ پیش لفظ مصنفہ کا قلمی ہے جبکہ پس سرورق رائے دینے والوں میں انتظار حسین، جوگندر پال اور لڈمیلا ویسلیسیوا شامل ہیں۔انتظار حسین کے مطابق ''شہناز خانم کہانی سلیقے سے لکھتی ہیں، کڑی سے کڑی ملتی چلی جاتی ہے کہیں جھول کا احساس نہیں ہوتا نہ یہ شک گزرتا ہے کہ ایسا ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں۔ واقعہ جس طرح بیان ہوتا ہے وہ ہمیں یقین دلاتا نظر آتا ہے کہ ایسا ہی ہوا ہوگا، کردار بھی صحیح طور پر نشوونما کرتے ہیں۔ ہر کردار اپنی پہچان الگ کراتا ہے‘‘۔زبان شستہ اور اندازِ بیان خوبصورت ہے۔ کتاب کے آخر پر رائے دینے والوں میں جمیل الدین عالی، حیدر قریشی ، پروفیسر رئیس فاطمہ، شفیق احمد شفیق، ڈاکٹرفیروز عالم، صابر ارشاد عثمانی، انوار شریف اور سہیل جاوید شامل ہیں۔ کتاب میں کل اٹھارہ اصناف شامل ہیں اور گیٹ اَپ عمدہ۔
اور‘ اب آخر میں آزاد حسین آزادؔ کی غزل:
اگر وہ حسن سرِ اوجِ طور آئے گا
خدا کو اپنے ہنر پر غرور آئے گا
ہمارے بعد بھی یہ آسماں رہے گا یوں ہی
ہمارے بعد بھی اک اور ''پور‘‘ آئے گا
تمہاری یاد کے طائر طلسم پھونکیں گے
ہم ایسے خشک درختوں پہ بور آئے گا
وہ آنکھ آنکھ انڈیلے گا ذائقے اپنے
تو جام جام بدن کو سرور آئے گا
اے میرے یوسفِ کنعاں، اے میری بینائی
جو تو دِکھے گا تو آنکھوں میں نور آئے گا
جس آئنے پہ پڑی ایک بار قوس تری
اُس آئنے میں کہاں عکسِ حور آئے گا
مرا یقین مجھے منتظر رکھے گا یونہی
پلٹ کے آئے گا وہ اور ضرور آئے گا
اسے سمیٹوں گا ہاتھوں کو زخم دے کر میں
تھکا تھکا سا، اگر چُور چُور آئے گا
میں جس کو ڈھونڈنے میدانِ حشر بھی پہنچا
وہ سوچتا تھا کہاں اتنی دور آئے گا
آج کا مقطع
اک آغاز سفر ہے اے ظفرؔ یہ پختہ کاری بھی
ابھی تو میں نے اپنی پختگی کو خام کرنا ہے