پارلیمنٹ نے بالکل ٹھیک قرارداد پاس کی: نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''پارلیمنٹ نے بالکل ٹھیک قرارداد پاس کی‘‘ کیونکہ اگر اس سے افراتفری پیدا ہوئی اور ایک کو دوسرے کا ہوش ہی نہیں رہے گا تو میری واپسی کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی ورنہ بظاہر تو واپس آنا ممکن نظر نہیں آ رہا اور بالکل اسی طرح میرا ملک سے باہر جانا بھی بالکل ٹھیک تھا ورنہ آج بھی جیل میں پڑا ہوتا جس پر اپنی عقلمندی کو داد دیتا ہوں؛ اگرچہ دیر آید لیکن چونکہ اچھے کام کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا اس لیے اسے خوش آمید کہنا چاہئے۔ آپ اگلے روز لندن میں اپنی رہائش گاہ سے میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک کو کرپٹ نظام سے نجات
دلانے کا وقت آ گیا: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ ''ملک کو کرپٹ نظام سے نجات دلانے کا وقت آ گیا ہے‘‘ اور اس سے پہلے آج تک چونکہ یہ وقت آیا ہی نہیں تھا اس لیے ہم بھی خاموش رہے کیونکہ قبل از مرگ واویلا کے قائل نہیں ہیں؛ البتہ وقت سے یہ پوچھنا ضرورچاہئے کہ اس نے آنے میں اتنی دیر کس لیے لگائی ہے اور ہم سے اتنا انتظار کیوں کرایا ہے؛ تاہم اب ایسا نہ ہو کہ یہ وقت آکر واپس چلا جائے اور خوشیاں دھری کی دھری رہ جائیں کیونکہ اس نے اب تک ہمیں کسی خوشی سے ہمکنار نہیں کیا۔آپ اگلے روز گرین ٹائون لاہور میں ایک تقریبِ افطار سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران کا ریکارڈ مذاکرات میں رکاوٹ: خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''عمران خان کا ریکارڈ مذاکرات میں رکاوٹ ہے‘‘ اگرچہ ہماری دعوت پر جب وہ مذاکرات کیلئے تیار ہوئے تو ہم نے یہ معمولی سی شرط لگا دی کہ وہ پہلے عوام سے معافی مانگیں‘ پھر مذاکرات کریں گے لیکن انہیں اتنی سی شرط بھی قبول نہیں تھی اس لیے یہ مذاکرات نہ ہوسکے، اور قوم کی ساری امیدیں خاک میں مل گئیں، بیشک ناک سے لکیریں نہ نکالیں‘ ہاتھ جوڑ کر ہی معافی مانگ لیں‘ قوم انہیں معاف کر دے گی۔ آپ اگلے روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کر رہے تھے۔
شادی کی تاریخ کسی وقت بھی آ سکتی ہے: ملائکہ اروڑہ
معروف بھارتی ماڈل ملائکہ اروڑہ نے کہا ہے کہ ''شادی کی تاریخ کسی وقت بھی آ سکتی ہے‘‘ کیونکہ موت اور شادی کا وقت مقرر ہے اور وہ اپنی تاریخ لے کر کسی بھی وقت آ سکتی ہے اور کوئی اسے آنے سے روک نہیں سکتا جبکہ میرا رقص دیکھ کر یہ اس قدر آزردہ ہوئی تھی کہ شادی کا وقت اپنے آپ ہی التوا میں پڑ گیا تھا۔ اب کچھ اپنے اطوار کو سنوارا ہے تو یہ وقت پھر آ سکتا ہے لیکن میں بھی پیچھے رہنے والی کہاں ہوں‘ اس لیے یہ وقت آکر واپس بھی جا سکتا ہے اور گئے وقت کوموڑ کر کوئی بھی نہیں لا سکتا۔ آپ اگلے روز ممبئی میں اپنی شادی کے حوالے سے سوالات کا جواب دے رہی تھیں۔
اک خیال سمندروں ڈونگھا
یہ صغیر تبسم کا پنجابی مجموعۂ کلام ہے۔ انتساب اپنے باپو اور امبڑی کے نام ہے۔ پسِ سر ورق رائے دینے والوں میں عطا الحق قاسمی اور امرت پال سنگھ شیدا (بھارتی پنجاب) شامل ہیں۔ دونوں نے اس کتاب اور شاعر کی بڑھ چڑھ کر تعریف کی ہے جبکہ اندرونِ سرورق ستائش کنندگان سید عامر سہیل (پرائڈ آف پرفارمنس) اور سرجیت سنگھ سندھو (امرتسر‘ بھارت) ہیں۔ کتاب میں نظمیں اور غزلیں‘ دونوں شامل ہیں اور یہ پنجابی شاعری میں ایک نئے ذائقے کا اضافہ کرتی ہے۔ سرورق پر شاعر کی تصویر ہے۔ نمونہ کلام:
دن، مہینہ، سال محبت واہ بئی واہ
ہر اک پل دے نال محبت واہ بئی واہ
اکو تھاں تے لبھ گیاں نیں مرشد جی
دارو، روٹی، دال، محبت واہ بئی واہ
نفرت ٹکراں مار کے آپ مر جانی
لوہے ورگی ڈھال محبت واہ بئی واہ
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
عشق جو ایک آزار تھا
کافی تیز بخار تھا
دل کے اندر پری تھی
سر پر بھوت سوار تھا
ڈوب کر سبھی مر گئے
سب کا بیڑا پار تھا
اچھا ہو گیا آپ ہی
جھوٹ موٹ بیمار تھا
بھیڑ تھی بہت اور وہ
خود سے ہی دوچار تھا
ہر دکان تھی بند‘ اور
کھلا ہوا بازار تھا
پہلے بھگتایا جسے
وہی دوسری بار تھا
جسے جھنجھوڑتے رہے ہم
پہلے ہی بیدار تھا
میں بھی پیدل تھا‘ ظفرؔ
وہ بھی سڑک سوار تھا
آج کا مطلع
کس نئے خواب میں رہتا ہوں ڈبویا ہوا میں
ایک مدت ہوئی جاگا نہیں سویا ہوا میں