"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اور افضال نوید

مہنگائی کے باعث محنت کش دباؤ میں ہیں: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''مہنگائی کے باعث محنت کش دباؤ میں ہیں‘‘ جبکہ ہم محنت کشوں سے بھی زیادہ دباؤ میں ہے کیونکہ نہ تو خلافِ معمول پہلے سی رونقیں ہیں اور نہ کسی اثاثے کی شکل دیکھ سکتے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں کہ اقتدار میں آ کر واقعی غلطی کی تھی حتیٰ کہ اب اس غلطی کی تلافی بھی نہیں ہو سکتی، جبکہ محنت کش طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ وہ تو ہمیشہ ہی دباؤ میں رہتا ہے بلکہ دباؤ میں رہنے کی عادت میں اس قدر مبتلا ہے کہ اس کے بغیر اس کا دل ہی کہیں نہیں لگتا، اس لیے وہ ہم سے کہیں بہتر واقع ہوا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں وفاقی وزرا و سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کر رہے تھے۔
موجودہ حکومت صرف اپنے مقدمات
ختم کرانے آئی ہے: مسرت جمشید چیمہ
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ ''موجودہ حکومت صرف اپنے مقدمات ختم کرانے کے لیے آئی ہے‘‘ جس کا ایک مثبت پہلو بھی ہے کیونکہ مقدمہ سچا ہو یا جھوٹا‘ وہ مقدمہ ہی ہوتا ہے جس میں ملوث ہو کر کوئی مفید کام کیا ہی نہیں جا سکتا؛ چنانچہ زیادہ تر مقدمات اس نے نیب ترامیم وغیرہ کے ذریعے ختم کرا لیے ہیں اور وہ پوری تندہی سے نہ صرف عدالتی فیصلوں کے خلاف ایک زبردست مہم چلا رہی ہے بلکہ الیکشن کی راہ میں روڑے بھی اٹکا رہی ہے جس سے اس کی صحت پر مثبت اثرات پڑے ہیں جبکہ سارے کاموں کی بنیاد صحت مندی ہی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
جماعت اسلامی نے عوام کو خواب
دکھائے: فیصل کریم کنڈی
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ ''جماعت اسلامی نے عوام کو خواب دکھائے‘‘ جبکہ ہم نے کبھی ایسا نہیں کیا ماسوائے اس کے کہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کا خواب دکھایا تھا جو خواب ہی رہا، جس پر ہم نے یہ کام ہی بند کر دیا کیونکہ جو خواب دیکھتے ہیں وہ ان کی تعبیر کا بھی تقاضا کرتے ہیں، اس لیے عوام کو کوئی خواب دکھانا ہی غلط ہے جس کا مطلب خواہ مخواہ عوام کی عادتیں خراب کرنا ہے؛ البتہ عوام کو صرف ڈراؤنے خواب ہی دکھانے چاہئیں تاکہ اُن کی طبیعت درست رہے لیکن شاید جماعت اسلامی ان اَسرار و رموز کو نہیں سمجھتی۔ آپ اگلے روز امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیان پر اپنے ردعمل کا اظہار کر رہے تھے۔
عمران خان کی حقیقت اب قوم
جان چکی ہے: احسن اقبال
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''عمران خان کی حقیقت اب قوم جان چکی ہے‘‘ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ ہماری حقیقت قوم بہت پہلے سے جان چکی ہے لیکن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی جبکہ ہم نے اپنی حقیقت کو کبھی چھپایا ہی نہیں اور وہ خود ہی آئینے کی طرح صاف اور شفاف تھی جو ملک کے اندر اور باہر اپنے جلوے بکھیر رہی ہے بلکہ ہم تو کئی دیگر حقیقتوں سے عوام کو بھی روشناس کرانا چاہتے تھے لیکن ہمیں اس کا موقع ہی نہیں مل رہا۔ آپ اگلے روز نارووال میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
خوابوں کی تکمیل کے لیے گھر چھوڑ دیا تھا: شہناز گل
بھارتی ماڈل و ٹی وی اداکارہ شہناز گل نے کہا ہے کہ ''خوابوں کی تکمیل کے لیے گھر چھوڑ دیا تھا‘‘ کیونکہ گھر میں رہ کر خوابوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی اگرچہ گھر چھوڑ دینے پر بھی یہ تکمیل نہیں ہو سکی تھی لیکن دیگر کئی ایسے تجربات ضرور ہوئے جو گھر میں رہ کر حاصل نہ ہو سکتے تھے، اس لیے گھر چھورنا کسی نہ کسی لحاظ سے اچھا ہی ہے کہ اگر خوابوں کی تکمیل مقصود نہ بھی ہو، تب بھی یہ کام کسی لحاظ سے مفید ہی رہتا ہے؛ تاہم یہ عمل دہرانا نہیں چاہیے کیونکہ ایک بار گھر چھوڑنے پر چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں۔ آپ اگلے روز ممبئی میں اپنے ایک انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
یہ کون سی ہے ہوا عالمِ خمار مِرے
ہِلا کے چل پڑے دروازے بار بار مرے
اڑا نہ تان میں اندر پرندے ہیں گھائل
گزار خستگی دھیرج سے انتشار مرے
جگہ جگہ نہیں ہے جاگ جانا کارِ درست
طلسمِ باد پہ رکھ تکیہ انحصار مرے
رگوں سے کھینچ حلاوت سے دہشتِ ایّام
لگا ہجومِ ثمر نخلِ پُربہار مرے
شبِ بسیط میں ہیں کہکشاؤں کا موجب
لہو میں غرق کچھ اجرامِ تنگ و تار مرے
جو رہنے دیتے نہیں گرد و پیش دلجمعی
کہیں پہ جمع ہوئے جاتے ہیں خمار مرے
مرے گزرنے کی امید اُن کو ہو شاید
ابھی بھی ہَوں کہیں اسبابِ تار تار مرے
جو دیکھنا ہے تو میری جگہ پہ آ کر دیکھ
جو جھیلنا ہے تو پھر سارے رُوپ دھار مرے
ترے گماں سے ہی رہتی تھی سانس سانس میں موج
کہاں چلا گیا دریائے ہمکنار مرے
تباہ کاریٔ ایجاد کے ہیں پروردہ
ہنوز شعبدہ ہائے ستم شعار مرے
اُدھیڑ رکھتے ہیں اندوہِ جبر سے سینہ
کچھ اور ہونے میں بیرونِ در حصار مرے
لپیٹتا چلا جاتا ہوں پاؤں سے رستہ
بچی نہیں ہے پلٹنے کو رہگزار مرے
یہ آئے دن کی قیامت سے کون نمٹے گا
کرے گا کون شب و روز اختیار مرے
کشادہ دامنی پھیلی تو پھیل جائیں گے
نگاہِ مور سے تا عرش برگ و بار مرے
نویدؔ سیپیوں کی کھینچ کھینچتی ہے سانس
سمندر آئے گا ساحل کرے گا پار مرے
آج کا مطلع
یہ بھی ممکن ہے کہ آنکھیں ہوں تماشا ہی نہ ہو
راس آنے لگے ہم کو تو یہ دنیا ہی نہ ہو

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں