ہمارے سامنے ملک لوٹا جا رہا لیکن
ہم کچھ نہیں بولیں گے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ '' ہمارے سامنے ملک لوٹا جا رہا ہے لیکن ہم کچھ نہیں بولیں گے‘‘ کیونکہ پہلے ہی سینئر نائب صدارت بلاوجہ چھین لی گئی اور اب اگرچہ چھینے جانے کو کچھ رہ نہیں گیا ہے؛ تاہم پارٹی کی پابندیاں ضرور ہیں اور اگرچہ حکومت پی ڈی ایم کی ہے لیکن وزیراعظم تو ہمارے ہی ہیں‘ اس لیے ملک کے لوٹے جانے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے جبکہ ویسے بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے اور جو کچھ ملک کے ساتھ پہلے ہوا ہے‘ اب اسی کو دہرایا جا رہا ہے؛ اگرچہ وسائل کی کمی اور خزانے کے خالی ہونے کا رونا بھی رویا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور پارٹی والوں کو بھلایا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز حیدر آباد میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
سیاست کو 25کروڑ عوام میں
لانا چاہتا ہوں: چودھری سرور
سابق گورنر پنجاب اور مسلم لیگ (ق)کے چیف آرگنائزر چودھری محمد سرور نے کہا ہے کہ ''سیاست کو 25کروڑ عوام میں لانا چاہتا ہوں‘‘ جبکہ فی الحال میں سیاست پارٹی کے 25 عوام میں لانے میں کامیابی حاصل کر چکا ہوں جسے بارش کا پہلا قطرہ سمجھنا چاہئے، نیز قطرہ قطرہ اکٹھا ہو کر ہی دریا بنتا ہے؛چنانچہ اسی طرح باقی 24کروڑ 99لاکھ اور 99ہزار9سو 75 عوام میں بھی سیاست کو لا کر رہوں گا کیونکہ:
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
جبکہ مذکورہ باقی عوام پر بھی لازم ہے کہ وہ سیاست میں آنے کے لیے تیار رہیں:
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
آپ اگلے روز مسلم لیگ ہائوس لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن میں تاخیر کا فیصلہ پارلیمنٹ
نے کرنا ہے: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''انتخابات میں تاخیر کا فیصلہ پارلیمنٹ نے کرنا ہے‘‘ کیونکہ الیکشن میں مزید تاخیر بھی ہو سکتی ہے اور ہونی بھی چاہئے جس کے لیے پارلیمنٹ کو تیار رہنا چاہئے کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے کہ الیکشن کے لیے حالات ابھی تک ساز گارنہیں ہو سکے اور پی ٹی آئی کا ووٹ بینک نہ صرف قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو رہا ہے اس لیے زیادہ بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں کہ ہزاروں کارکنوں کو بند کر کے صورت حال تبدیل ہو گئی ہے‘ اس لیے انتخابات کا رسک ہرگز‘ ہرگز نہیں لیا جا سکتا:
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آپ اگلے روز پشاور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کچرے سے بجلی بنائی جاتی ہے
لیکن ہم نے پارٹی بنا لی: سائرہ بانو
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے) کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے کہا ہے کہ ''کچرے سے بجلی بنائی جاتی ہے لیکن ہم نے پارٹی بنا لی‘‘ حالانکہ لوڈشیڈنگ کے اس زمانے میں اس طرح سے کافی بجلی بنائی جا سکتی تھی اور اس پارٹی کو خواہ مخواہ قائم کر دیا گیا ہے جسے عاقبت نا اندیشی اور بہت بڑی فضول خرچی قرار دیا جا سکتا ہے؛ اگرچہ یہ کچرا بجلی بنانے کے قابل نہیں تھا کیونکہ اس قدر ناقص کچرے سے بجلی کہاں بن سکتی ہے؛ تاہم کوشش ضرور کی جانی چاہئے تھی کہ بقول شاعر:
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے خصوصی گفتگو کر رہی تھیں۔
والدہ میری پیدائش کے خلاف تھیں: فاطمہ سہیل
معروف اداکارہ، ماڈل اور میزبان فاطمہ سہیل نے کہا ہے کہ ''والدہ میری پیدائش کے خلاف تھیں‘‘ لیکن میں نے بھی پیدا ہونے کا تہیہ کر رکھا تھا کیونکہ میں بھی اچھی طرح سے جانتی تھی کہ :
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا
چنانچہ میرا ایک طرح سے والدہ سے مقابلہ شروع ہو گیا جس میں مَیں کامیاب ہوئی اور والدہ شکست سے دو چار ہوئیں کیونکہ میں اگر نہ ہوتی تو جو کچھ میں نے کیا ہے‘ وہ کوئی اور کرتا اور میں ہرگز نہ کر سکتی‘ یعنی لینا ایک نہ‘ دینا دو۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی شو میں بطور مہمان شرکت کر رہی تھیں۔
اور‘ اب ہڈالی سے گل فراز کی غزل:
بھلا یہ واقعہ کب پہلی دفعہ ہونے والا تھا
کبھی کا ہو چکا ہے‘ اب اعادہ ہونے والا تھا
میں روندا تو گیا لیکن ہوا ہے فائدہ بھی کچھ
اب آئندہ کی پروا ہی نہیں کیا ہونے والا تھا
جو سیدھے آدمی پر اکثریت چڑھ نہ دوڑے تو
میں بعض اوقات کیونکر اتنا ٹیڑھا ہونے والا تھا
یہاں موجودگی پھر ختم کرنا تو ضروری تھی
کہ آخر وہ کہیں اور بے تحاشا ہونے والا تھا
جدھر دیکھو یہاں دیوار ہی دیوار ہے اب تو
ہمارے درمیاں حالانکہ رستہ ہونے والا تھا
بہت عمدہ دوا تھی وصل جو نایاب ہوتی تھی
یہ واحد نسخہ تھا جس سے میں اچھا ہونے والا تھا
بنانے جا رہا تھا پھر سے استعمال کے قابل
بہت بوسیدہ سا اک درد تازہ ہونے والا تھا
صحیح سے ہو نہیں پایا‘ ادھورا رہ گیا یعنی
کمی تھی‘ پوری کرنے کو‘ دوبارہ ہونے والا تھا
میں دولت مند تھا‘ بہتات ہی دیکھی ہمیشہ سے
خسارے میں اب آخر کار ناغہ ہونے والا تھا
کہاں ممکن تھا ملنا اس کا جو میرے موافق تھا
گئے گزرے ہوئے پر ہی گزارا ہونے والا تھا
آج کا مطلع
یوں تو ہے زیرِ نظر ہر ماجرا دیکھا ہوا
پھر نہیں دیکھا ہے وہ رنگِ ہوا دیکھا ہوا