حکومت ملک کو درست سمت میں گامزن
کرنے کی کوشش کر رہی ہے: وزیر خارجہ
وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''حکومت ملک کو درست سمت میں گامزن کرنے کی کوشش کر رہی ہے‘‘ جس کی ابتدا میئر کراچی کے انتخابات سے کر دی گئی ہے اور جس کا سہرا صرف اور صرف زرداری صاحب کے سر ہے کیونکہ ان کے پاس ایک ایسی گیڈر سنگھی ہے جو کسی بھی صورت حال میں پانسا پلٹ سکتی ہے جیسا کہ انہوں نے ایک ضمنی الیکشن میں اراکین کے ضمیر کو جگا کر کیا تھا جبکہ حالیہ میئر کراچی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی کے 31اراکین کا ضمیر نیند سے جگایا گیا ہے اور وہ مختلف مصروفیتوں کی وجہ سے الیکشن ہال تک بھی نہ پہنچ سکے۔
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند
آپ اگلے روز لاہور میں ملک بھر کی بزنس کمیونٹی کے وفد سے ملاقاتیں کر رہے تھے۔
کراچی میں پی پی پی جیت گئی
لیکن جمہوریت کی ہار ہوئی: شاہ محمود
پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ''کراچی میں پی پی پی جیت گئی لیکن جمہوریت کی ہار ہوئی‘‘ اور جمہوریت کو اس ہار سے بچانے کیلئے ہمارے 31اراکین نے سر توڑ کوشش کی لیکن ٹوٹے ہوئے سر کے ساتھ کوئی کوشش کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جبکہ کسی کی گاڑی پنکچر ہو گئی تھی اور کسی کا ڈرائیور بیمار پڑ گیا اور کسی کا سارا وقت نہانے دھونے میں خرچ ہو گیا اور اس طرح جمہوریت کے ہارنے کا سانحہ رونما ہوا جس پر پارٹی میں تین دن کا سوگ منایا جا رہا ہے اور جماعت اسلامی نے ہمارے ساتھ اس درد ناک واقعے پر اظہارِ افسوس و ہمدردی کیا ہے اور اسے صرف اور صرف منشائے ایزدی قرار دیا ہے جس پر ماسوائے صبر کے کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
شہباز شریف نیک نیتی سے عوام کی خدمت کر رہے ہیں: سیف الملوک
نواز لیگ کے رہنما سیف الملوک کھوکھر نے کہا ہے کہ ''شہباز شریف نیک نیتی سے عوام کی خدمت کر رہے ہیں‘‘ لیکن افسوس کہ اس کا کوئی نتیجہ برامد نہیں ہو رہا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاید دوسری طرح کام کرنے کیلئے ان کے پاس وسائل ہیں نہ خزانے کی صورتحال انہیں اس کی اجازت دیتی ہے ورنہ اب تک کشتوں کے پشتے لگ چکے ہوتے‘ اس لیے وہ اچھے دنوں کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنی کارکردگی کا حسب سابق مظاہرہ کر سکیں‘ ہمت مرداں مددِ خدا۔ آپ اگلے روزمانگا منڈی پہنچنے پر اپنا استقبال کرنے والوں سے خطاب کر رہے تھے۔
جمہوریت پسند کارکن پیپلزپارٹی
میں شامل ہو رہے ہیں: اشرف بھٹی
پیپلز پارٹی لاہور کے سینئر نائب صدر محمد اشرف بھٹی نے کہا ہے کہ ''جمہوریت پسند کارکن پیپلز پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں‘‘ اگرچہ پارٹی میں پہلے ہی جمہوریت پسند کارکن ضرورت سے زیادہ ہیں‘ طوعاً و کرہاً نئے لوگوں کو بھی پارٹی میں کھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اول تو پارٹی میں آصف علی زرداری ہی جمہوریت پسندی کے حوالے سے کافی ہیں اور وہ اکیلے ہی سوا لاکھ کے برابر ہیں کیونکہ جو حکمت عملی ان کے پاس ہے وہ کسی پارٹی یا اس کے قائد کے پاس نہیں ہے‘ جو خاموشی سے کام کرتے ہیں اور پتا اس وقت چلتا ہے جب پانی مخالف کے سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
زائد الوزن ہوں لیکن اپنی
جسامت سے پیار ہے:متھیرا
ماڈل‘ اداکارہ اور میزبان متھیرا نے کہا ہے کہ ''زائد الوزن ہوں لیکن اپنی جسامت سے پیار ہے‘‘ کیونکہ میرا سب سے بڑا ہتھیار بھی یہی ہے کیونکہ میں مخالف کے اوپر کھڑی ہو کر اسے چھٹی کا دودھ یاد دلا سکتی ہوں اور کئی دفعہ اس کا کامیابی سے مظاہرہ بھی کر چکی ہوں حتیٰ کہ اب کسی میں اتنی جرأت نہیں ہے کہ میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے بلکہ میں اس میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کی فکر میں رہتی ہوں کیونکہ کئی مخالف زیادہ فربہ جسم اور وزنی ہوتے ہیں لہٰذا ان کے ساتھ پورا اترنے کیلئے زیادہ وزنی ہونا ضروری ہوتا ہے اور امید ہے کہ میں اس نیک مقصد میں بھی بہت جلد کامیاب ہو جائوں کیونکہ خوراک پر آج کل میری خصوصی توجہ ہے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی شو میں سوالوں کے جوابات دے رہی تھیں۔
اور اب آخر میں تازہ غزل
دریا کی ریت رہتی ہے پانی کے ساتھ ساتھ
ہیں کچھ رکاوٹیں بھی روانی کے ساتھ ساتھ
سنتا بھی کم ہے اور وہ پڑھتا بھی کم سے کم
تحریر بھی پڑی ہے زبانی کے ساتھ ساتھ
سب کچھ نہیں بتانے کے قابل بھی، کیا کہیں
ہیں کچھ حقیقتیں بھی کہانی کے ساتھ ساتھ
اپنے خیال میں تو یہ کافی تھا سر بسر
اب اور کیا ہو یاد دہانی کے ساتھ ساتھ
اس سے زیادہ اور کراتے شناخت کیا
خود بھی چلے گئے تھے نشانی کے ساتھ ساتھ
سر پر پڑا یہ بوجھ گرا دیں گے ایک دم
ہلکے بھی ہوں گے دل کی گرانی کے ساتھ ساتھ
دونوں کا ایک دوسری سے کیا ملاپ ہے
پیری بھی چل رہی ہے جوانی کے ساتھ ساتھ
پھر اس کے بعد ان کی خبر ہی نہ ہم نے لی
کچلے گئے جو لفظ معانی کے ساتھ ساتھ
کب سے تھے اس غزل میں ظفرؔ ہم پھنسے ہوئے
فارغ ہوئے ہیں مصرع ثانی کے ساتھ ساتھ
آج کا مقطع
اس کا ہونا ہی بہت ہے وہ کہیں ہے تو سہی
کیا سروکار اس سے ہے مجھ کو ظفرؔ کیسا ہے وہ