چین کی طرف سے سرمایہ کاری مثبت
اقدام ہے: وزیراعظم
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''چین کی طرف سے 3ارب 48کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری مثبت اقدام ہے‘‘ جبکہ ایسے مثبت اقدامات کی ملک کو اشد ضرورت ہے اور ہمیشہ رہے گی اس لیے دنیا کے ہر ترقی یافتہ ملک کو مثبت اقدامات شروع کرنا چاہئیں کیونکہ ہمارا ملک مثبت سوچ کا حامل ہے اور دنیا بھر سے مثبت سوچ ہی کی توقع رکھتا ہے اور وہ ممالک خود بھی مثبت سوچ کے بغیر ترقی نہیں کر سکتے اور انہیں ہمارا ممنونِ احسان ہونا چاہئے کہ ہم انہیں مثبت سوچ رکھنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں جس کے بغیر وہ ہمارے ہی جیسے ہو کر رہ جائیں گے اور دوسرے ملکوں کو مثبت سوچ رکھنے کا مشورہ دینے جوگے ہی رہ جائیں گے۔ آپ اگلے روز ملکی سلامتی کونسل کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ملکی تباہی کا باعث بننے والی حکومت
کو آئینی طریقے سے ہٹایا: رانا ثنا
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ''ملکی تباہی کا باعث بننے والی حکومت کو آئینی طریقے سے ہٹایا‘‘ جبکہ ملک آئین و قانون کے تکلفات سے ویسے ہی بے نیاز ہو چکا کیونکہ اپنے مفاد میں عدالتی احکامات سے بھی عذر خواہی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں لیا جاتا جبکہ توہین عدالت کا تو باب ہی بند کر دیا گیا ہے تاکہ یہ کام کرنے والوں کے جذبات کا خیال کیا جا سکے۔ اور جہاں تک ملکی تباہی کا سوال ہے تو اس سے پہلے ملک کے ساتھ اس سے بھی بڑا اور سنگین مذاق کیا جاتا رہا لیکن کسی کو اس پر کوئی ردِعمل ظاہر کرنے کا خیال ہی نہیں آیا۔ آپ اگلے روز مارگلہ ایونیو کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
نوازشریف انتخابات سے پہلے
پاکستان میں ہوں گے: اعظم نذیر تارڑ
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ ''نواز شریف انتخابات سے پہلے پاکستان میں ہوں گے‘‘ لیکن چونکہ انتخابات ابھی تک نظر نہیں آ رہے‘ اس لیے پہلے یا بعد کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور وہ لندن میں بیٹھ کر ہی ملک کی خدمت کرتے رہیں گے جس سے انہیں کوئی نہیں روک سکتا جبکہ پہلے یہ خیال تھا کہ مخالفین کا صفایا کرنے کے بعد وہ واپس آ جائیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس سے بھی ان کے ووٹ بینک میں کوئی فرق نہیں پڑے گا بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے؛ چنانچہ ان حالات میں الیکشن کرائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی قائد ِ محترم کی واپسی کا کوئی امکان موجود ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
لڑکے کھڑے ہوں اور کہیں
جہیز نہیں لینا: بشریٰ انصاری
سینئر اداکارہ بشریٰ انصاری نے کہا ہے کہ ''لڑکے کھڑے ہوں اور کہیں جہیز نہیں لینا‘‘ اگرچہ وہ یہ کام بیٹھے بیٹھے بھی کر سکتے ہیں جبکہ جہیز لینے یا نہ لینے کا فیصلہ لڑکے کے والدین اس کے بغیر اپنے طور پر بھی کر سکتے ہیں۔ لڑکے آخر لڑکے ہوتے ہیں یعنی عقل کے کچے جبکہ جہیز لینے کا مطالبہ لالچی والدین ہی کرتے ہیں۔ اس لیے اگر جہیز کے خلاف کھڑے ہونا ہے تو لڑکے کے والدین کو ہونا ہے‘ لڑکے کو نہیں، اس لیے لڑکوں سے اس بات کا مطالبہ کرنا ہی غلط ہے اس لیے میں نے جہاں لڑکے کہا ہے‘ اسے لڑ کے کے والدین سمجھا جائے اور کھڑے ہونے کے بجائے وہ یہ فیصلہ بیٹھے بیٹھے بھی کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
میاں بیوی کے درمیان احترام کا عنصر
ہونا بے حد ضروری ہے: امام الحق
پاکستانی کرکٹر امام الحق نے کہا ہے کہ ''میاں بیوی کے درمیان احترام کا عنصر ہونا بہت ضروری ہے‘‘ کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ احترام کا عنصر صرف شوہروں میں ہی پایا جاتا ہے اور بیویاں اس سے قطعاً نابلد ہوتی ہیں اور طعن و تشنیع کے ساتھ ساتھ مار کٹائی کے ذوق و شوق کی بھی حامل ہوتی ہیں حالانکہ انہیں صرف طعنوں پر ہی اکتفا کرنا چاہئے اور اسی سے ان کی تسلی ہو جانی چاہئے کیونکہ شوہر پر کسی بھی طرح کا تشدد نہایت نامناسب عمل ہے اوراسی صورت میں شوہر حضرات کے لیے عاملوں کی خدمات حاصل کرنا بے حد ضروری ہو جاتا ہے‘ نیز اس کے لیے دعائوں کا سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز ایک چینل کے شو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
ہو کر تیری غفلت سے نگوں چھوڑ دیا ہے
اب میں نے سمندر پہ جنوں چھوڑ دیا ہے
تُو نے بھی تو حد توڑ کے رکھ دی میرے دل کی
میں نے بھی تجھے‘ کس سے کہوں چھوڑ دیا ہے
کس نوع کا پھل چاہیے مٹی سے کسی کو
پانی کی جگہ کس نے یہ خوں چھوڑ دیا ہے
اب ایک درِ خواب کھلا رہتا ہے اندر
باہر کی حقیقت کو بروں چھوڑ دیا ہے
مدت سے ملاقات کی اک پیاسی گلی میں
جاں سے گزر آنے کا فسوں چھوڑ دیا ہے
سنتا ہوں اُسے ایک گھڑی چین نہیں ہے
میں نے بھی اسی دُھن میں سکوں چھوڑ دیا ہے
آنکھوں میں کِھلا پھول درختوں سے گزرنا
پوچھوں گا کسی روز کہ کیوں چھوڑ دیا ہے
آواز پلٹ آتی ہے اپنی ہی طرف کو
کس کس پہ میں آوازے کسوں‘ چھوڑ دیا ہے
پتھریلی زمینوں پہ نہ اب کھینچ کہ تجھ کو
اے عشق ترے پاؤں پڑوں چھوڑ دیا ہے
زور آوروں نے دستِ تلف رکھنے کو بالا
دنیا کو دھواں پھینک زبوں چھوڑ دیا ہے
جاتا ہوں نویدؔ اپنی خبر لینے کبھی میں
اک میکدے میں شہرِ دروں چھوڑ دیا ہے
آج کا مطلع
اسی سے آئے ہیں آشوب آسماں والے
جسے غبار سمجھتے تھے کارواں والے