آباد ہوئے برباد ہوئے
یہ شاعر‘ نقاد اور فکشن رائٹر علی اکبر ناطق کی سوانح عمری ہے جو کہ عین جوانی کے عالم میں لکھی گئی ہے اور جس کا مطلب ہے کہ ابھی مزید کئی جلوؤں کی بھی توقع رکھنی چاہئے۔ مصنف نے بچپن سے لے کر اب تک کے پیش آمدہ واقعات کا جائزہ لیا ہے اور بنیادی طور پر فکشن رائٹر ہونے کے ناطے اس میں فکشن کا رنگ بھی بھر دیا ہے‘ طرزِ بیان کی حد تک اسے فکشن ہی کی طرح مزے لے لے کر پڑھا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں کچھ ایسے شمولات بھی ہیں جو عام طور پر سوانح عمریوں میں نہیں ہوتے‘ چنانچہ جب تک کتاب ختم نہیں ہوتی یہ قاری کو اپنی مضبوط گرفت میں لیے رکھتی ہے‘ موصوف نے شعر و ادب کے میدان میں جتنی جلد اپنی پہچان بنائی ہے‘ حیرت انگیز ہے۔ کتاب جہلم سے چھاپی گئی ہے۔ گیٹ اَپ عمدہ‘ صفحات 400اور بیک فلیپ عرفان جاوید کے قلم سے۔
شکیل عادل زادہ کانگارخانہ...سب رنگ کہانیاں
یہ ہمارے دوست شکیل عادل زادہ کے مشہورِ عالم جریدے سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے سمندر پار سے شاہکار افسانوں کے تراجم کا تیسرا مجموعہ ہے جسے حسن رضا گوندل نے ترتیب دیا ہے۔ انتساب آشفتگانِ سب رنگ کے نام ہے۔ پس سرورق مجیب الرحمن شامی اور خالد مسعود خان کے قلم سے جبکہ اندرون سرورق اخلاق احمد اور فیاض الرحمن قادری نے لکھے ہیں۔ ابتداء میں شکیل عادل زادہ‘ مجیب الرحمن شامی اور حسن رضا گوندل کی تحریریں شامل کی گئی ہیں۔ مترجموں میں پطرس بخاری سے لے کر حسن ہاشمی تک شامل ہیں جبکہ افسانہ نگاروں میں موپساں سے لے کر کافکا تک شامل ہیں ۔ آغاز میں مرتب کی تصویر اور مختصر تعارف درج ہے۔ کہانیوں کی کل تعداد 30 ہے۔ ٹائٹل جاذبِ نظر گٹ اَپ عمدہ ہے۔
کتابی سلسلہ مکالمہ کراچی
اکادمی ادبیات کی طرف سے شائع ہونے والے اس معیاری ادبی جریدے کا یہ 40واں شمارہ ہے جو کہ سالنامہ ہے۔ شعبہ نثر میں حصہ لینے والوں میں ذکیہ مشہدی‘ عبداللہ جاوید‘ اسلم انصاری‘ محمد عاصم‘ طاہرہ اقبال‘ عرفان جاوید‘ شہلا نقوی‘ فرید حسین (فکشن) اور مضمون نگاروں میں اسد محمد خان‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ ڈاکٹر امجد طفیل‘ احمد محفوظ‘ ڈاکٹر رؤف پاریکھ‘ جمیل الرحمن (نقطۂ نظر) اور خاکے‘ یادیں میں اکرام اللہ‘ سید مظہر جمیل اور شہناز خانم عابدی جبکہ شعراء میں عبداللہ جاوید‘ سحر انصاری‘ سلیم کوثر‘ تحسین فراقی‘ یاسمین حمید‘ معین نظامی‘ مطالعات کے ضمن میں نجیبہ عارف اور کرن سنگھ کے علاوہ یاسمین حمید‘ ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی‘ ڈاکٹر محمد اشرف کمال‘ ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین و دیگران شامل ہیں۔
ر م
یہ صغیر حسن کا مجموعۂ غزل ہے۔ انتساب عائشہ ‘اسوہ اور عبداللہ کے نام ہے۔ پس سرورق شاعر کی تصویر اور افتخار عارف اور عباس تابش کی تحسینی رائے درج ہے۔ اندرون سرورق شاعر کے منتخب اشعار درج ہیں۔ افتخار عارف نے بجاطور پر لکھا ہے کہ ان غزلوں میں خیال کی تازگی اور مضامین کا تنوع موجود ہے۔
اور اب آخر میں تازہ غزل؛
رُکی ہوئی تھی ہوا، بادبان ہو گئی ہے
زمیں تھی پاؤں تلے، آسمان ہو گئی ہے
نئے زمانے کا یہ معجزہ ہی جانیے گا
وہ شمعِ ناز اگر مہربان ہو گئی ہے
مِٹی ہوئی کوئی تصویر سی محبت کی
جو دائیں بائیں تھی اب درمیان ہو گئی ہے
بہت دنوں سے زمانہ تھا منتظر اُس کا
وہ داستان جو خود ہی بیان ہو گئی ہے
لطیفہ یہ ہے کہ ٹوٹے ہیں اپنے پر جب سے
تو کچھ زیادہ ہی اونچی اُڑان ہو گئی ہے
لیا ہے جب سے حفاظت کا آپ نے ذمہ
ہماری ذات بہت بے امان ہو گئی ہے
کہو میں اپنی طبیعت کا اور کیا بتلاؤں
کہ بوڑھا ہو گیا ہوں، یہ جوان ہو گئی ہے
کسی کے دل میں جو تھوڑی سی جگہ تھی خالی
سمجھتے ہیں کہ ہمارا مکان ہو گئی ہے
ظفر تجھے کہ جو ہے عاقبت کی فکر اتنی
نمازِ عشق ادا کر، اذان ہو گئی ہے
آج کا مطلع
چلو اتنی تو آسانی رہے گی
ملیں گے اور پریشانی رہے گی