ملکی مسائل کا حل صرف نوازشریف
کے پاس ہے: مریم اوزنگزیب
وفاقی وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ نواز کی مرکزی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''ملکی مسائل کا حل صرف نوازشریف کے پاس ہے‘‘ کیونکہ مسائل وہی حل کر سکتا ہے جسے اچھی طرح سے معلوم ہو کہ ملکی مسائل کیا ہوتے ہیں اور پیدا کیسے کیے جاتے ہیں اور جن میں سے ایک حل تو یہ ہے کہ بیرونی ممالک میں موجود اثاثے بیچ کر ملک کے سارے قرضے اتار دیں جو اسی مقصد کے تحت بنائے گئے تھے اور اس طرح ملک ڈیفالٹ ہونے سے بھی بچ جائے۔ اگرچہ وہ اثاثے بیچنے سے ان ملکوں کے خود ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ موجود ہے؛ تاہم اثاثے بیچنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ اس سے زیادہ اثاثے دوبارہ بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں۔
دبئی ملاقاتوں میں کوئی حتمی
فیصلہ نہیں ہوا: شازیہ مری
پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنما اور وفاقی وزیر برائے تخفیفِ غربت شازیہ مری نے کہا ہے کہ ''دبئی ملاقاتوں میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا‘‘ کیونکہ جب تک یہ فیصلہ نہیں ہو جاتا کہ الیکشن ہونے ہیں یا نہیں‘ اس وقت تک اس سے متعلقہ کسی بھی بات چیت کا فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں الیکشن کروا کر چاروں شانے چت ہونے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے کیونکہ آدمی کی عزت اس کے اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے اور کوئی بھی عقلمند آدمی اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارنا چاہتا کیونکہ یہ کام کرنے والے اس کے آس پاس ہی موجود ہوتے ہیں جبکہ الیکشن پرراضی ہونے کا ابھی تک دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھیں۔
ہو سکتا ہے کہ چودھری سرور کل کو
ہماری پارٹی میں شامل ہو جائیں: علیم خان
استحکام پاکستان پارٹی کے صدر عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ ''ہو سکتا ہے کہ چودھری سرور کل کو ہماری پارٹی میں شامل ہو جائیں‘‘ کیونکہ دوسرے شامل ہونے والوں کی طرح ان کا بھی اپنا ووٹ بینک نہیں ہے جبکہ ہمارے پاس بھی ووٹ کے بجائے نوٹ بینک ہے؛ اگرچہ چودھری صاحب کے پاس نوٹ بینک نہیں لیکن وہ باعثِ برکت ہونے کی وجہ سے ہماری پارٹی کو چار چاند لگا سکتے ہیں جبکہ ہماری پارٹی میں دو چاند تو پہلے ہی موجود ہیں‘ تیسرے چودھری صاحب ہوں گے اور چوتھے کی تلاش ہم جاری رکھیں گے جو کسی طرف سے بھی طلوع ہو سکتا ہے۔آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اسمبلی میں توسیع کے لیے حکومت
کا ساتھ دیں گے: راجہ ریاض
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ''اسمبلی میں توسیع کے لیے حکومت کا ساتھ دیں گے‘‘ کیونکہ اول تو میں حکومت کا ساتھ دینے کے لیے ہی قائدِ حزبِ اختلاف مقرر ہوا تھا اور دوسرا‘ کیا پتا پھر کبھی اسمبلی کا منہ دیکھنا نصیب ہو یا نہ ہو، سو اسی مدت میں چار دن کی توسیع سے اپنا رانجھا راضی کیا جا سکتا ہے کیونکہ حلقے کے لوگ ابھی سے طعنے دینے لگ گئے ہیں اسی لیے حلقے میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے کہ آدمی کی عزت اس کے اپنے ہاتھ ہی ہوتی ہے؛ اگرچہ جو مقام اس وقت حاصل ہے اسے احترام کا درجہ نہیں دیا جا سکتا ؛تاہم
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
ماہنامہ الحمرا
اس جریدے کا تازہ شمارہ زیرِ نظر ہے جس میں حسبِ معمول معیاری نگارشات شامل کی گئی ہیں۔ حصۂ نثر کے لکھنے والوں میں پروفیسر فتح محمد ملک، طارق حبیب، لطیف قریشی، وحید الرحمن خان، ڈاکٹر منور عثمانی، پروفیسر حسن عسکری کاظمی، ڈاکٹر نجیب جمال، سید ضیاء حسین و دیگران، علاوہ ازیں اعتبار ساجد، ڈاکٹرستیہ پال آنند،سلمیٰ اعوان، افسانہ نگاروں میں ڈاکٹر اسلم انصاری، ڈاکٹر اے بی اشرف،آغا گل، عذرا اصغر و دیگران جبکہ حصہ شاعری میں نذیر قیصر، غلام حسین ساجد، جمیل یوسف، طالب انصاری اور دیگران شامل ہیں۔ گوشۂ مزاح نگاری میں ڈاکٹر فرید اللہ صدیقی، فرخ محمود، نسیم سحر،جمیل گشکوری، ناصر محمود۔ آغاز میں نعتیں ہیں اور آخر میں تبصرے۔
اور‘ اب اسی شمارے میں شامل نذیر قیصر کی یہ خوبصورت غزل :
دن کے پیچھے دن بہتا ہے رات کے پیچھے رات
بہتے دن کو دیکھ رہی ہے آنکھیں میچے رات
تیرے بدن کے پھول کا کھلنا اور بارش کا گیت
بارش میں مٹی کی خوشبو باغ بغیچے رات
چھلک چھلک جاتے ہیں دِیوں سے گلیاں اور بازار
دن کے اوپر شہر بسا ہے شہر کے نیچے رات
دِیا جلا کے شام ڈھلے وہ گھر سے نکلتی ہے
اور پھر جل پڑتی ہے اس کے پیچھے پیچھے رات
ہری گھاس ہے اور گھاس پر شبنم کی گلکاری
پڑے ہوئے ہیں دھرتی پر قالین غلیچے رات
پائوں کے نیچے آ جاتے ہیں کیسے کیسے خواب
آنکھیں میچے دن چلتا ہے آنکھیں میچ رات
چاند ستارے شاخوں میں مرجھاتے جاتے ہیں
کوئی بہادر ہے جو اپنے لہو سے سینچے رات
ساری ساری رات جاگتے تھے ناصرؔ اور میں
میرے شہر میں سو جاتی تھی کھلے دریچے رات
اک کھڑکی میں باغ ہے باغ میں صبح کے کھلتے پھول
اک محراب میں دیا پڑا ہے دِیے کے پیچھے رات
آسمان تک ہم نے اپنے پائوں پسارے ہیں
قیصرؔ اور کہاں تک اپنی چادر کھینچے رات
آج کا مقطع
کہاں سے کیسے کسے کون لے اڑا تھا ظفرؔ
جو آدھی رات کو رولا سا دشت و در میں رہا