"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں‘ متن اور افضال نوید

غربت سے نجات کا پلان تیار کر لیا ہے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''غربت سے نجات کا پلان تیار کر لیا ہے‘‘ جبکہ اس کی افزائش کا پلان گزشتہ ادوارِ حکومت میں تیار ہوا تھا اور اس سے نجات بھی ہم ہی دلوائیں گے کیونکہ لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ اگرچہ اس کی افزائش میں کوئی خاص کردار نہیں تھا کیونکہ غربت ملک سے پیسہ باہر جانے سے ہوتی تھی جس میں حکومتوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا کہ یہ ایک خود کار عمل ہے جو اپنے آپ ہی ہوتا رہا اور اس کی اسی وقت خبر ہوئی جب اندرون و بیرون ملک اثاثوں کے ڈھیر لگ چکے تھے اور ہم حیران و پریشان ہو کر رہ گئے تھے۔ آپ اگلے روز کراچی میں وزیراعلیٰ و گورنرسندھ اور ایم کیو ایم کے وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔
حکومت آخری دنوں کو عوام کے بجائے
اپنے لیے استعمال کر رہی ہے: سراج الحق
امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''حکومت آخری دنوں کو عوام کے بجائے اپنے لیے استعمال کر رہی ہے‘‘ حالانکہ آخری دنوں کو اپنی غلطیوں کو معاف کرانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے اور اسی لیے اسے آخری موقع بھی کہا جاتا ہے جو پھر نہیں آتا اس لیے حکمرانوں کو باقی سارے کام چھوڑ کر معافی تلافی کرنی چاہیے جبکہ بندہ بشر غلطی کا پتلا ہے اور حکمرانوں میں بشریت کا مادہ ویسے بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے‘ اس لیے اب بھی وقت ہے اور جو چند دن باقی رہ گئے ہیں انہیں غنیمت جانتے ہوئے اپنے شب و روز صرف معافی تلافی میں گزارنے چاہئیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
اسمبلیاں دو دن پہلے توڑنے میں
کوئی قباحت نہیں: احسن اقبال
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''اسمبلیاں دو دن قبل توڑنے میں کوئی قباحت نہیں‘‘ کیونکہ اگر پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہی ہے تو دو دن آگے کیا اور پیچھے کیا‘ ورنہ کون نہیں جانتا کہ اس وقت حکومت کا انتخابات کیلئے راہ ہموار کرنا کیا معنی رکھتا ہے حالانکہ کئی ایسے صحیح اور سچے عذر اب بھی موجود ہیں جن کی بنا پر انتخابات کو ایک معقول مدت کے لیے ٹالا جا سکتا ہے جن میں نگران حکومت کے قیام کا مسئلہ سرفہرست ہے جسے جتنا ہو‘ ٹالا جانا چاہئے۔ اس سے الیکشن بھی اتنی ہی دیر تک ٹلے رہیں گے جبکہ بارشیں اور سیلاب بھی الیکشن کے التوا کے لیے ایک جائز عذر ہو سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں شریک تھے۔
ملکی ترقی میں (ن) لیگ کی قیادت
کا بنیادی کردار ہے: لیگی رہنما
مسلم لیگ کے ضلعی رہنما میاں عامر لطیف نے کہا ہے کہ ''ملکی ترقی میں (ن) لیگی قیادت کا مرکزی کردار ہے‘‘ جس کا اظہار ملک کے چپے چپے کی صورتحال سے واضح طور پر ہو رہا ہے کہ ملکی ترقی کسی طرح اپنے عروج تک پہنچ گئی ہے اور خوشحالی کا دور دورہ ہے اور ملک ابھی تک غربت کی لکیر سے اوپر ہی اٹھتا جا رہا ہے جبکہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانا ایک تازہ ترین کارنامہ ہے اور جو (ن) لیگی قیادت کی ترقی پسند سوچ کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ع
ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند
آپ اگلے روز شیخوپورہ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
شادی کو برقرار رکھنا ایک فن ہے
جسے سیکھنے کی ضرورت ہے: طوبیٰ انور
اداکارہ اور ماڈل طوبیٰ انور نے کہا ہے کہ ''شادی کو برقرار رکھنا ایک فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہے‘‘ اور اگر شادی سے پہلے اسے سیکھنے کی کوشش کی جائے تو اس کوشش میں شادی کی عمر ہی تمام ہو جاتی ہے اور صرف یہ فن باقی رہ جاتا ہے‘ بشرطیکہ اسے اس وقت تک سیکھا جا چکا ہو جبکہ شادی کے بعد اس لیے یہ سیکھنا ممکن نہیں کہ اصل رونا دھونا ہی اس کے بعد شروع ہوتا ہے اور اسے برقرار رکھنے کا فن سیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ نیز اس وقت تک بہت سا پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے اسی لیے بہترین حل یہ ہے کہ اس جھنجھٹ ہی میں نہ پڑا جائے کیونکہ یہ خواہ مخواہ دوسروں کے ہاتھ اپنے گلے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ آپ اگلے روزکراچی میں ایک انٹرویو کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی ایک غزل:
افلاک میں ہلچل تھی سرِ شامِ غریباں
مٹی مری بے کل تھی سرِ شامِ غریباں
چلتی تھی‘ ٹھہرتی تھی لہو خیز ہوا کو
بے چینی سی ہر پل تھی سرِ شامِ غریباں
اور لمحہ بہ لمحہ کوئی پلٹی ہوئی سسکی
اور آنکھ سے اوجھل تھی سرِ شامِ غریباں
اور قریۂ نایافت میں خیامِ ارم تھے
اور ریگِ مسلسل تھی سرِ شامِ غریباں
اور خار بھی پیوست تھے ارواحِ ابد کے
اور آنکھ بھی جل تھل تھی سرِ شامِ غریباں
اور بابِ درخشاں کھلا جاتا تھا جبیں میں
اور شام مکمل تھی سرِ شامِ غریباں
تھی سرخی ٔ خونِ شہدا جانبِ آفاق
ہر بوند بھی چھاگل تھی سرِ شامِ غریباں
یکجا ہوئی تھی وحشتِ بیگانگیٔ زیست
تقدیر بھی پاگل تھی سرِ شامِ غریباں
تالیف کا دھبہ تھی بلاخیزیٔ خامہ
عفریت کا چنگل تھی سرِ شامِ غریباں
سولی پسِ سولی تھی نظارے کے گلے میں
کربل پسِ کربل تھی سرِ شامِ غریباں
کن زحمتوں میں کینۂ انساں کی رعونت
کن رحمتوں کا پھل تھی سرِ شامِ غریباں
کامل تھا جہاں دین وہاں شمعِ شہادت
پروردۂ اکمل تھی سرِ شامِ غریباں
اور تن تھا نویدؔ اور ہی خاکسترِ خوں گشت
اور روح بھی گھائل تھی سرِ شامِ غریباں
آج کا مطلع
طلسم ہوشربا میں پتنگ اڑتی ہے
کسی عقب کی ہوا میں پتنگ اڑتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں