غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے
بڑھنا ہوگا: وزیراعظم
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا‘‘ اگرچہ تیس پینتیس سالہ غلطوں سے سبق سیکھنے کے لیے اب حکومت کے پاس پینتیس دن بھی باقی نہیں رہ گئے لیکن کم از کم اس کام کا آغاز تو ہو سکتا ہے حالانکہ کچھ غلطیاں ایسی ہیں کہ جو بہت ضروری تھیں جن سے ملک و قوم کا نام بھی روشن ہوا جبکہ مستقبل کے کئی خطرات ٹالنے میں بھی مدد ملی، اس لیے یہ مستقبل کی پیش بندی ہیں، انہیں نہ تو غلطیاں کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان سے کوئی سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پاکستان منرلز سمٹ سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان مقتدرہ اور نوازشریف
سے تلخیاں کم کریں: فواد چودھری
استحکام پاکستان پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر چودھری فواد حسین نے کہا ہے کہ ''عمران خان مقتدرہ اور نوازشریف سے تلخیاں کم کریں‘‘ تاکہ وہ بھی خان صاحب سے اپنی تلخیاں کم کرنے کے بارے سوچ سکیں اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ جس طرح خاکسار اور کئی دیگر پی ٹی آئی رہنمائوں نے تلخیاں کم کرکے اپنی جان چھڑا لی ہے، اسی طرح خان صاحب بھی یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں اور اس کے لیے صرف ایک پریس کانفرنس کی ضرورت پڑتی ہے ۔ جبکہ صفائی ویسے بھی بہت اچھی چیز ہے۔ آپ اگلے روز الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعظم کی کاوشوں سے ملک ایک بار
پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا: گورنر پنجاب
گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم کی کاوشوں سے ملک ایک بار پھر ترقی کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے‘‘ جبکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ترقی اس کا واضح ثبوت ہے اور اس سے بسوں اور ٹرکوں کے کرایوں میں بھی ترقی ہو گی جبکہ لوگوں کو وہ ترقی بھی نہیں بھولی جو گزشتہ ادوارِ حکومت میں ہوئی تھی اور ملک ترقی کی بلندیوں کو چھونے لگا تھا۔ نیز پٹرول اور ڈیزل میں قیمتوں میں ترقی سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اُسی حساب سے ترقی ہو گی اور جاتے جاتے حکومت کا عوام کو یہ تحفہ ہمیشہ یاد گار رہے گا بشرطیکہ عوام اس ترقی کی تاب لاتے ہوئے باقی رہ گئے۔ آپ اگلے روز گورنر ہائوس میں لارڈ نذیر احمد سمیت مختلف رہنمائوں سے ملاقات کر رہے تھے۔
ہو سکتا ہے کہ الیکشن طویل مدت
کیلئے ملتوی ہو جائیں: منظور وسان
وزیراعلیٰ سندھ کے مشیرِ زراعت اور پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان نے کہا ہے کہ ''ہو سکتا ہے کہ الیکشن اچھے خاصے وقت کے لیے ملتوی ہو جائیں‘‘ اور اس اچھے خاصے التوا کی میعاد بتانے کے لیے مجھے ایک خواب اور دیکھنا پڑے گا کیونکہ اب میں نے ایک بار پھر پیش گوئیوں کے لیے خوابوں کا سہارالینا شروع کر دیا ہے اور اس کے بعد ہی حتمی طور پر بتا سکوں گا کہ یہ کتنے عرصے کے لیے ملتوی ہوں گے کیونکہ میں بے بنیاد باتوں پر یقین نہیں رکھتا؛ اگرچہ اب تک لاتعداد پیش گوئیاں غلط ثابت ہو چکی ہیں لیکن میں ہمت ہارنے والا نہیں۔ نیز جب سے حکومت موافق پیش گوئیوں کا آغاز کیا ہے‘ یہ زیادہ تر سچی ثابت ہونے لگی ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی سے حسبِ معمول ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
میں عمران خان کا نام لے رہا‘ کون
کہتا ہے پابندی ہے: مصدق ملک
مشیر پٹرولیم اور مسلم لیگ نواز کے رہنما مصدق ملک نے کہا ہے کہ ''میں عمران خان کا نام لے رہا ہوں،کون کہتا ہے کہ پابندی ہے‘‘ اور اسی طرح حکومتی عمائدین بھی خان صاحب کا نام لینے میں ذرا بھی کفایت سے کام نہیں لیتے اور نام لے لے کر ان کے بارے میں اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں جبکہ پولیس، الیکشن کمیشن اور دیگر اس کے علاوہ ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ ان سب لوگوں کو خان صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا نام یاد ہی نہیں، اس لیے یہ کہنا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا نام لینے پر پابندی ہے‘ سرا سر مبالغہ اور غلط بیانی ہے جبکہ ان کے بیان میں خان صاحب کے بارے میں کوئی نہ کوئی پیشگوئی بھی ضرور ہوتی ہے اور وہ ساری پیش گوئیاں بہت جلد پوری ہونے والی ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں افضال نوید کی غزل:
کوئی جھروکا سرِ شام رہ گیا ہو گا
لبوں پہ آیا ہوا نام رہ گیا ہو گا
غبارِ سر پسِ آلام رہ گیا ہو گا
کوئی ذریعۂ دشنام رہ گیا ہو گا
کوئی بساط بہت دور تک بچھی ہو گی
کسی کا پایۂ اندام رہ گیا ہو گا
صدائیں گھوم رہی ہوں گی بیقراری میں
کہیں کا مچنے کو کہرام رہ گیا ہو گا
شجر کو نیند نہ آئی تمام شب ہو گی
کوئی پرندہ تہِ دام رہ گیا ہو گا
پلٹ کے آیا نہ ہو گا نشے کی دُھن میں کوئی
کہیں پہ خالی پڑا جام رہ گیا ہو گا
ہوا کے چلنے میں تاخیر ہو گئی ہو گی
کوئی حصارِ در و بام رہ گیا ہو گا
تمام راہ گزاریں نمٹ چکی ہوں گی
کسی کے شہر کا آرام رہ گیا ہو گا
ابھی تلک رہِ بے رہروی نہیں آئی
کہیں کا لگنے کو الزام رہ گیا ہو گا
خلل تو آیا کہیں ہو گا خود شناسی میں
کہیں تو خدشۂ انجام رہ گیا ہو گا
نویدؔ لوٹ کے آیا نہیں تو عار نہیں
کسی گلی میں کوئی کام رہ گیا ہو گا
آج کا مقطع
ظفرؔ اب کے سخن کی سر زمیں پر ہے یہ موسم
بیاں غائب ہے اور رنگِ بیاں پھیلا ہوا ہے