امید ہے عوام ہماری کارکردگی اور
مشکلات کو سمجھیں گے:وزیراعظم
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''امید ہے عوام ہماری کارکردگی اور مشکلات کو سمجھیں گے‘‘ اور جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے تو اسے سمجھنے کے لیے کسی خاص سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پورے خشوع خضوع سے ایک ہی کام کیا گیا ہے جو ہر طرح سے آتا بھی ہے اور آدمی کو کرنا بھی وہی کام چاہئے جو اسے نہ صرف آتا ہو بلکہ وہ اس میں پوری مہارت بھی رکھتا ہو جبکہ مشکلات بھی یہی ہیں کہ اس بار اپنی کارکردگی دکھانے کا مناسب اور پورا موقع نہیں ملا جس کے لیے وسائل کی ضرورت تھی اور وسائل کارکردگی کی بدولت باقی رہے ہی نہیں تھے جس کے لیے حکومت کو ہم خود بھی کسی حد تک ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ آپ اگلے روز قومی اسمبلی سے الوداعی خطاب کر رہے تھے۔
کوشش کریں گے کہ کسی ایک نام
پر متفق ہو جائیں: راجہ ریاض
سابق قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ''کوشش کریں گے کہ میں اور وزیراعظم کسی ایک نام پر متفق ہو جائیں‘‘ اگرچہ نگران وزیر اعظم تو وہی ہوگا جس کا نام لندن سے آئے گا جبکہ ہماری مشاورت تو رسمی ہی ہو گی جبکہ میری مشاورت تو اس کے لیے درکار بھی نہیں ہوگی کہ میں اور وزیراعظم شروع سے ہی ہم خیال چلے آ رہے ہیں اور یہ عہدہ بھی مجھے حکومت ہی کے سبب ملا تھا اور اگر واقعی کوئی مشاورت ہوتی تو یہ سیاسی کیریئر کی آخری کارروائی بھی ہو سکتی ہے کیونکہ مستقبل کے پیش نظر اب اپنے شاندار ماضی پر ہی گزارا کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
شیر جلد لندن سے واپس
آنے والا ہے: مریم نواز
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ نواز کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ ''شیر جلد لندن سے واپس آنے والا ہے‘‘ اور شیر چونکہ فطری طور پر بہادر ہوتا ہے اور ملک عزیز میں بہادروں کی کوئی قدر نہیں ہے‘ اسی لیے وہ اب تک لندن ہی میں ٹکا ہوا ہے اور اب چونکہ قوم بہادری کا پورا پورا امتحان لے چکی ہے اس لیے قوم کو اپنی روایتی دلیری سے مستفید کرنے کے لیے وہ جلد واپس آ رہا ہے تاکہ جو لوگ بھی اس کی بہادری کا کرشمہ دیکھنے کے متمنی ہیں‘ ان کی دیرینہ حسرت پوری ہو جائے جبکہ لندن والوں کو چاہئے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کسی اور بہادر شیر کا انتظام کر لیں کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ آپ اگلے روز پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ ماڈل ٹائون میں ایک تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔
ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے
کے لیے بیس سال چاہئیں: سعد رفیق
سبکدوش وزیر ریلوے و ہوا بازی خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بیس سال چاہئیں‘‘ اس لیے قوم اگر ایسا چاہتی ہے تو بیس سال کے لیے مجھے اس کی خدمت کا موقع دے کیونکہ ریلوے ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ نیز پی آئی اے کو کوئی جہاز بھی دینے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے اس کی درستی کے لیے مزید بیس سال کی ضرورت ہے جبکہ زندہ قوموں کے لیے چالیس سال کوئی بڑی بات نہیں ہے اور یہ چٹکی بجانے میں گزر جاتے ہیں جس کے لیے میں بالکل تیار ہوں اور اگر اس کے لیے الیکشن چالیس سال کے لیے ملتوی بھی کرنا پڑیں تو دیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ یہ ایک بہت بڑا قومی منصوبہ ہے‘ الیکشن تو ملک میں ہوتے ہی رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز ریلوے کی گزشتہ سولہ ماہ کی کارکردگی پر بریفنگ دے رہے تھے۔
کوئی بھی حادثہ آپ کو مزید
مضبوط بناتا ہے: اداکارہ ثنا
اداکارہ ثنا نے کہا ہے کہ ''کوئی بھی حادثہ آپ کو مزید مضبوط بناتا ہے‘‘ اس لیے مضبوط بننے کے خواہشمند خواتین و حضرات کو حادثات سے بچنے کے بجائے ان کا خیرمقدم کرنا چاہئے کیونکہ ہڈی وغیرہ ٹوٹنے کی صورت میں نئی ہڈیاں ڈالی جاتی ہیں جس سے نہ صرف مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ دوسرے حادثے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں نیا خون لگوانے سے بھی مضبوطی میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ پرانا خون عام طور پر فاسد ہوتا ہے اور عام طور پر سفید بھی ہو چکا ہوتا ہے اور اگر کوئی حادثہ ہونے میں دیر ہو جائے تو سڑک پر بے احتیاطی سے بھی گوہرِ مراد حاصل کیا جا سکتا ہے اور جب تک مطلوبہ مضبوطی حاصل نہ کر لی جائے‘ حادثوں کو نہ صرف دعوت دینی بلکہ ان کے لیے کوشش بھی کرنی چاہئے کیونکہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک شو میں گفتگو کر رہی تھیں۔
اور‘ آخر میں اقتدار جاوید کی غزل:
کناروں تک کنواں پانی سے بھرنے کی گھڑی ہے
یہ صبحِ شوق ہے‘ ہر شے ابھرنے کی گھڑی ہے
انہِیں ضوپاش زینوں پر تجھے دیکھا تھا ہنستے
یہیں زینہ بہ زینہ پھول دھرنے کی گھڑی ہے
بہت کچھ دیکھنے کے بعد کا آیا ہے عالم
زمانے خواب میں تحلیل کرنے کی گھڑی ہے
زمن آرا یہی ہے تیرے لو دینے کی ساعت
یہی شمعوں کے دھاگوں کے کترنے کی گھڑی ہے
کئی کہرے کے بادل ہیں جو اڑتے جا رہے ہیں
ترے گہرے نشیبوں میں اترنے کی گھڑی ہے
نکلنا چاہتی ہے جب کسی پیکر سے صورت
تری ہیبت ڈرا دیتی ہے ڈرنے کی گھڑی ہے
ابھی کچھ وقت ہے سچ بولنا مہنگا پڑے گا
تو کیا اپنے موقف سے مکرنے کی گھڑی ہے
یہی عبرت سرائیں وقت کی ہیں پہلی دریافت
جہانوں سے خموشی سے گزرنے کی گھڑی ہے
نشاطِ مرگ کا گہرا تصور بارور تھا
وہ حسن ِتابشِ آخر ہے مرنے کی گھڑی ہے
آج کا مقطع
مشاطگی معنی بہت ہو چکی ظفرؔ
کچھ روز اب یہ زلف پریشاں بھی چاہئے