"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ، متن اور اوکاڑہ سے افتخار احمد

اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوں: شہباز شریف
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''میں 30سال سے اسٹیبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ہوں‘‘ اگرچہ ہم دونوں بھائی ہی آنکھ کا تارا ہیں لیکن بھائی صاحب برسرِ اقتدار آنے کے بعد عموماً نظریاتی ہو جایا کرتے ہیں لیکن میں نے ایسا کبھی نہیں کیا اور اپنے معروف نظریے پر قائم رہتا ہوں، اگرچہ وہ نظریہ بھی ہم دونوں میں مشترک ہے لیکن چونکہ وہ اس کے ثمرات اچھی طرح سے سمیٹ چکے ہیں‘ اس لیے وہ نظریاتی ہونا افورڈ کر سکتے ہیں اور جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایک آنکھ کا تارا ہیں اور دوسری آنکھ انہوں نے دیگر کاموں کے لیے مخصوص کر رکھی ہے جبکہ خاکسار دونوں آنکھوں کا تارا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں اینکرز اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
شاہ محمود معاہدے کے تحت باہر‘چیئرمین
پی ٹی آئی کے خلاف ہیں: راجہ ریاض
گزشتہ قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف راجہ ریاض نے کہا ہے کہ ''شاہ محمود معاہدے کے تحت باہر ہیں اوروہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف ہیں‘‘ کیونکہ اگر انہوں نے کوئی معاہدہ نہیں کیا تو وہ جیل سے باہر کیسے ہو سکتے ہیں، البتہ انہوں نے پریس کانفرنس ابھی تک نہیں کی اور یہ بھی شاید ان کے معاہدے ہی کا حصہ ہو اور جہاں تک مجھے یاد ہے‘ پریس کانفرنس تو میں نے بھی نہیں کی تھی اور محض ضمیر کی بیداری پر لبیک کہتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا کیونکہ میں زیادہ دیر تک ضمیر کی مزاحمت نہیں کر سکتا اور اب جاگے ہوئے ضمیر پر ہی گزارہ کر رہا ہوں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
نواز شریف کی واپسی بہت جلد ہوگی: خواجہ آصف
سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''نواز شریف کی واپسی بہت جلد ہوگی‘‘ اور اس کا روزانہ اعلان اس لیے بھی ضروری ہے کہ لوگوں کو ا س بارے کافی شبہات ہیں اور جو بے بنیاد بھی نہیں ہیں، اگر انہیں اس بات کا یقین ہو جائے تو ہمارے سیاسی مستقبل کی آخری امید بھی دم توڑ جائے گی جو پہلے بھی کوئی خاص نمایاں نہیں ہے اور اگر کوئی اُن کی پا رٹی سے نگران وزیراعظم کی تعیناتی ہوتی تو انہیں پھر بھی ریلیف کی کچھ امید ہو سکتی تھی جس کی انہیں واپسی کیلئے اشد ضرورت تھی لہٰذا نگران وزیراعظم کے اعلان کا ان کا خواب بھی چکنا چور ہو چکا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نگران وزیراعظم پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں: عطا اللہ تارڑ
مسلم لیگ نواز کے رہنما عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ ''نگران وزیراعظم پر ہمیں کوئی حیرانی نہیں‘‘ کیونکہ اس نے جدھر سے آنا تھا اُدھر سے ہی آیا ہے اس لیے حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ پریشان بہت ہوئے ہیں کیونکہ تقریباً سبھی اس کے امیدوار تھے جن کی امیدوں پر ایک ساتھ پانی پھر گیا ہے جبکہ بارشوں کی وجہ پانی ویسے بھی آج کل عام ہے اس لیے اس نے کہیں تو پھرنا ہی تھا؛ چنانچہ اس اعلان کے بعد سارے بڑے آرام سے ہیں حالانکہ انہیں یقین تھا کہ اس نام کا اعلان قائدِ محترم کی طرف سے ہی ہوگا اور ا ب اُن کی واپسی بھی مشکوک ہو گئی ہے‘ جس کی پہلے بھی کوئی خاص امید نہیں تھی۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ایک مداح روزانہ پھولوں کا گلدستہ بھجواتا تھا: درخشاں سلیم
اداکارہ درخشاں سلیم نے کہا ہے کہ ''ایک مداح روزانہ پھولوں کا گلدستہ بھجواتا تھا‘‘ اور مجبوراً میں انہیں آگے بیچ دیتی تھی کیونکہ انہوں نے پڑے پڑے خراب ہی ہو جانا تھا جبکہ میں پھولوں کی ایسی بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتی، لیکن اسے جب پتا چلا کہ اس کے بھیجے گلدستوں کا کیا حشر ہوتا ہے، اس نے مایوس ہو کر یہ سلسلہ بند کر دیا جبکہ مارکیٹ میں اور بھی کئی اچھی چیزیں دستیاب ہیں جنہیں گلدستے کی جگہ بھجوایا جا سکتا تھا لیکن شاید وہ اس سے زیادہ پیسے خرچ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس طرف کوئی توجہ نہ دی حالانکہ آدمی کو مستقل مزاج ہونا چاہئے اور کنجوس ہونے کا ثبوت نہیں دینا چاہئے تھا حتیٰ کہ ایک آدھ پھول روزانہ بھیج کر بھی وہ اس سلسلے کو جاری رکھ سکتا تھا۔ آپ اگلے روز ایک انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب اوکاڑہ سے افتخار احمد کی شاعری:
دل میں اک شخص کے گھر کرنا ہے
یعنی دیوار کو در کرنا ہے
پاؤں پکڑے ہیں زمیں نے میرے
آسمانوں کو بھی سرکرنا ہے
آسماں نے جو دیے ہیں گھاؤ
ان پہ مٹی نے اثر کرنا ہے
سوکھ جائے نہ کہیں چشمۂ دل
مجھے اک مصرعِ تر کرنا ہے
پیار کی سخت ضرورت پڑے گی
ایک پودے کو شجر کرنا ہے
٭......٭......٭
یہ جو اک رنج کی ارزانی ہے
یہ فقیری ہے کہ سلطانی ہے
ہر کوئی قیس بنا پھرتا ہے
عشق میں اتنی ہی آسانی ہے
اس کو آئینہ بناتے کیونکر
جس کی تقدیر میں حیرانی ہے
پھیل جائے نہ ترے سینے تک
گوشۂ دل میں جو ویرانی ہے
دونوں تمثیل ہیں سسکاری کی
نوحہ خوانی کہ غزل خوانی ہے
دشت ٹھہرا ہے مری آنکھوں میں
اور لگتا ہے رواں پانی ہے
وقت تھوڑا ہے مہ و انجم کا
میرا قصہ بڑا طولانی ہے
ہوک ایسی بھی دبی ہے دل میں
جو ترا عرش ہلا جانی ہے
آپ کہتے ہیں خموشی جس کو
بے زبانوں کی زباں دانی ہے
تیری آسانی پہ کب مشکل تھی
میری مشکل میں جو آسانی ہے
آج کا مطلع
اسے منظور نہیں چھوڑ جھگڑتا کیا ہے
دل ہی کم مایہ ہے اپنا تو اکڑتا کیا ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں