قابلِ علاج مرض
برطانوی وزیراعظم سر ونسٹن چرچل ایک بار شہر کے پاگل خانے کا دورہ کررہے تھے کہ اس دوران انہوں نے ایک پاگل سے پوچھا: کیا نام ہے آپ کا؟ اس پر وہ پاگل بولا: پہلے آپ بتائیے کہ آپ کون ہیں؟
''میں برطانیہ کا وزیراعظم ہوں‘‘ چرچل نے کہا۔
میں جب یہاں آیا تھا تو میں نے بھی لوگوں کو یہی بتاتا تھا! پاگل نے جواب دیا۔
اپنی اپنی قسمت
ایک سرکاری افسر پاگل خانے کے دورے پر تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک پاگل اپنے کمرے میں آہ و بکا کر رہا ہے اور بار بار دیوار سے سر ٹکرا رہا ہے۔ افسر نے اس کی و جہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ اسے ایک لڑکی سے محبت تھی جس سے اس کی شادی نہیں ہو سکی تھی تو یہ اس کے غم میں ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور سارا دن یہی کچھ کرتا رہتا ہے۔ وہ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ ایک اور پاگل بری طرح چیخ چلا اور رو رہا تھا۔ افسر نے اس کی وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ اُس لڑکی کی شادی اس سے ہو گئی تھی!
بے وقوف نہیں پاگل
ایک شخص گاڑی پر کہیں جا رہا تھا کہ پاگل خانے کے سامنے اس کی گاڑی کا ایک ٹائر پنکچر ہو گیا۔ وہ نیچے اترا، ٹائر اتارااور سٹپنی چڑھائی۔ جب وہ نٹ کسنے لگا تو اس نے دیکھا کہ نٹ بولٹ وہاں سے غائب ہیں جو غالباً پاس کھیلتے ہوئے کوئی بچہ اٹھا کر لے گیا تھا۔ وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ اب کیا کرے، اتنے میں پاگل خانے کی دیوار پر بیٹھے ایک پاگل نے کہا کہ باقی ٹائروں سے ایک ایک نٹ بولٹ نکالو اور وہ لگا کر آرام آرام سے گاڑی چلاتے ہوئے ورکشاپ تک لے جائو۔ اُس نے حیران ہو کر اوپر دیکھا اور بولا: کیا تم پاگل ہو؟ اس پر وہ پاگل بولا: میں پاگل ہوں‘ بیوقوف نہیں۔
عقلمندی
ایک پاگل دیوار میں کیل ٹھونک رہا تھا لیکن کیل اس نے الٹا پکڑ رکھا تھا اور وہ دیوار میں ٹھک نہیں رہا تھا جس پر دوسرے پاگل نے کہا: بیوقوف! یہ اس دیوار کا کیل ہی نہیں ہے، اور یہ کہہ کر وہ کیل سامنے والی دیوار پر لے گیا اور وہاں کیل رکھ کر بولا: دیکھا! یہ اس دیوار کا کیل تھا، آئو اسے ٹھونک لو!
اور‘ اب اوسلو (ناروے) سے فیصل ہاشمی کی ایک نظم:
اپنی لڑھکتی سوچوں کی
ان بکھری دنیاؤں میں
جانے کتنا تنہا ہے وہ...
جب جب میں یہ سوچتا ہوں
پتھر کی اک سل کے نیچے
دل میرا دب جاتا ہے!
میں نے اس کے چہرے پہ ابھری
مخوف تکلیفوں کی
صد ہا قبریں دیکھی ہیں
جن کو اکثر آنکھوں کے سیلاب
بہا کر لے جاتے ہیں!
کتنی صدیوں سے وہ جاگ رہا ہے
تھکا ہوا ہے
اپنی نیندوں سے باہر ہی
اپنے آپ سے لڑتا ہے وہ!
میں نے اک دن ہمت کر کے پوچھ لیا تھا
جنم جنم سے ایسے ہو تم
یا لوگوں کی نظروں نے یہ حال کیا ہے!
کہنے لگا وہ: ماں کہتی تھی...
جس دن میرا جنم ہوا تھا
اس دنیا میں‘ ایک ہی وقت میں
کتنے ہی سورج نکلے تھے
جو میری دید کو آئے تھے
میری پیشانی پر ان کے
روشن بوسے مہکے تھے
اور کرنیں محوِ رقص ہوئی تھیں
دودھ ‘ عسل کی نہریں بہی تھیں!
پھر جب بڑا ہوا...
راتوں کے نامعلوم جہانوں کی
ان بھیس بدلتی پرچھائیوں نے
مجھ میں رہنا سیکھ لیا تھا
میرے اندر‘ روشنیوں نے آنا چھوڑ دیا تھا
اب صدیوں کی رات بسی ہے اور
اُگا ہے سناٹا
اک پل کے لیے بھی سو نہ سکا ہوں!
پھر وہ اپنے ملبے کے نیچے سے نکل کر
سر کو ہلاتے‘ غصے سے‘ بیکار سی باتوں میں الجھا
اور گرد اڑاتے‘ اتر گیا تھا تاریکی میں!
اس کی اس بے نور کتھا سے
اتنا ہی میں جان سکا ہوں
وہ بس... اس دنیا میں
غم کی بھوک مٹانے ہی کو آیا تھا!!
آج کا مطلع
ہزار بندش اوقات سے نکلتا ہے
یہ دن نہیں جو مری رات سے نکلتا ہے